عَنْ عَبْدِ اﷲِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ قَالَ فَرَضَ رَسُوْل اﷲِﷺ زَکَوٰۃَ الْفِطْرِ طُھْراً لِلصِّیَامِ مِنَ اللَّغْوِ وَ الرَّفَثِ وَ طُعْمَۃً لِلْمَسَاکِیْنِ‘‘(ابوداؤد)
ترجمہ:— حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر روزہ دار کی لغویات اور فحش گوئی سے روزہ کو پاک کرنے اور مساکین کو کھانا کھلانے کے لئے فرض قرار دیاہے‘‘(ابوداؤ)
خوشی کے مواقع پر لوگ عموماً دوسروں کو بھول جاتے ہیں اور اپنے آپ میں مگن رہتے ہیں۔ یہ بات اسلام کے امتیازات میں سے ہے کہ وہ اس طرح کے مواقع پر بھی دوسروں بالخصوص غریبوں کو یاد رکھنے اور خوشی میں شریک کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اہم مواقع پر تو شرکت کو لازمی حصہ بنادیا ہے چنانچہ عیدالفطر میں صدقہ فطر لازمی قرار دے دیا ہے اور عیدالاضحی کے موقع پر قربانی میں غریبوں کا ایک حصہ متعین کردیا ہے۔
صدقہ فطر کیا ہے ؟
فطر کے معنی روزہ کھولنے کے ہیں۔ اصطلاح میں اس صدقہ کو صدقہ فطر کہتے ہیں جو رمضان ختم ہونے پر روزہ کھولنے کی خوشی اور شکریہ کے طور پر ادا کیا جاتاہے۔
صدقہ فطر کی حکمت؟
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے کہ ’’صدقہ فطر روزہ دار کی لغویات اور فحش گوئی سے روزہ کو پاک کرنے اور مساکین کو کھانا کھلانے کے لئے مقرر کیا گیا ہے ‘‘( ابن ماجہ)
صدقہ فطر کس پر واجب ہے ؟
حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر مسلمانوں پر واجب قرار دیا ہے ۔ خواہ وہ غلام ہو یا آزاد، مرد ہو یاعورت ، چھوٹا ہو یا بڑا ‘‘(بخاری ومسلم)
امام ابو حنیفہ کے نزدیک تو نصاب زکوٰۃ کا مالک ہونا ضروری ہے لیکن دیگر ائمہ کے نزدیک نصاب زکوٰۃ کا مالک ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ جس کے پاس ایک دن اور ایک رات سے زائد کی خوراک اپنے اور اپنے ماتحتین کے لئے ہو تو وہ اپنی طرف سے اور اہل و عیال کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرے ۔ واضح رہے کہ صدقہ فطر کے وجوب کے لئے حولان حول یعنی نصاب زکوٰۃ پر سال گزرنے کی شرط بھی نہیں ہے ۔
صدقہ فطر کی مقدار:
کھجور کشمش یاجو ہو تو ایک صاع(تقریباً ساڑھے تین کلو) اور گیہوں ہو تو نصف صاع(تقریباً پونے دو کلو) فی کس کے لحاظ سے صدقہ فطر نکالنا چاہئے ۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے ’’گیہوں کے ایک صاع سے دو آدمیوں کا صدقہ فطر ادا کرو ، کھجور او جو کے ایک صاع سے ایک آدمی کا صدقہ فطر ادا کرو‘‘ (دارقطنی، احمد)
امام ابوحنیفہ ؒ ، امام بخاریؒ، عمر بن عبدالعزیز ؒ، حسن بصریؒ وغیرہ کی رائے ہے کہ غلہ و اناج کی قیمت بھی صدقہ فطر میں دی جاسکتی ہے ۔ حالات کے تقاضے کے تحت اب تو تقریباً تمام علماء کا اتفاق ہے کہ غلہ و اناج کے بدلے قیمت دی جاسکتی ہے۔
صدقہ فطر کی ادائیگی کا وقت:
عیدالفطر کے دن نماز عید کی ادائیگی سے پہلے صدقہ فطر ادا کردیناچاہئے ۔ رمضان کے آخری ایام میں بھی ادا کیا جاسکتا ہے ۔جیسا کہ عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ’’صدقہ فطر نماز کے لئے جانے سے پہلے ادا کردیا جائے ‘‘ (بخاری ومسلم) عبداللہ ابن عمرؓ کے غلام نافعؒ کا بیان ہے کہ’’ عبداللہ ابن عمرؓ گھر کے چھوٹے بڑے تمام افراد کی طرف سے صدقہ فطر دیتے تھے حتیٰ کہ میرے بیٹوں کی طرف سے بھی دیتے تھے اور عیدالفطر سے ایک یا دو دن پہلے ہی ادا کردیتے تھے ‘‘۔(بخاری)
نماز عید کے بعد بھی بطور قضا دے سکتے ہیں لیکن اتنی تاخیر مناسب نہیں کیونکہ اس سے صدقہ فطر کا مقصد فوت ہو جاتا ہے ۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ ’’جس نے صدقہ فطر نماز عید سے پہلے ادا کیا تو وہ صدقہ فطر کی حیثیت سے مقبول ہے اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا تو وہ صرف صدقات میں سے ایک صدقہ ہے ‘‘(ابوداؤد)
قابل توجہ امور :
(۱) جو شخص کسی وجہ سے رمضان کے روزے نہ رکھ سکے اسے بھی صدقہ فطر ادا کرنا چاہئے ۔
(۲) مقامی طور پر صدقہ فطر کی تقسیم زیادہ بہتر ہے۔ ایک شہر سے دوسرے شہر بھیجنا پسندیدہ نہیں۔ ہاں غریب رشتہ دار وں کو بھیجا تو حرج نہیں یاشہر میں مستحقین نہیں ہیں تو دوسری جگہ بھیجا جاسکتاہے۔
(۳) ایک آدمی کا صدقہ فطر کئی فقیروں کو اور کئی آدمیوں کا صدقہ فطر ایک فقیر کو دیا جاسکتا ہے ۔
(۴) ملازموں کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا مالک
پر واجب نہیں ہے۔