عَنِ ابْن عُمَرَ رَضِیَ اﷲُ عَنْہٗ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہٗ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَاَلَ : ’’لَا یَسْتَرْعِیْ اللّٰہٗ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ عَبْداً رَعِیَّۃً قَلَّتْ اَوْ کَثُرَ تْ اِلاَّ سَأَلَہٗ اﷲ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ عَنْھَا یَوْمَ القِیَامَۃِ اَقَامَ فِیْھَا أمْرَ اﷲ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ اَمْ اَضَاعَۃٗ حَتّٰی یَسْاَلُہٗ عَنْ أَھَلِ بَیْتِہٖ خَاصَّۃً(مسند احمد)
عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اللہ تبارک و تعالیٰ کسی بندے کو کچھ لوگوں پر اقتدار بخشتا ہے خواہ وہ کم ہوں یا زیادہ ہوں اس بندے سے اللہ تبارے و تعالیٰ قیامت کے دن اس کے ماتحت لوگوں کے متعلق سوال کرے گا کہ ان پر اللہ کے دین کو جاری کیا یا اس کو برباد کردیا یہاں تک کہ آدمی سے اس کے خاص اہل خاندان (بیوی بچوں) کے بارے میں بھی سوال کرے گا۔
تشریح
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ ہر وہ شخص جو کچھ افراد کا امیر یا ذمہ دار مقرر کیا جائے خواہ اس کے ماتحت کم لوگ ہوں یا زیادہ ہوں جس طرح وہ دنیاوی امور میں ان کی نگرانی اور ان کی ضروریات کی تکمیل کا ذمہ دار ہوتا ہے اسی طرح ان کے دینی امور کا بھی وہ ذمہ دار ہوتا ہے اور قیامت کے دن اس سے مؤاخذہ ہوگا کہ دنیا میں اس نے اپنے ماتحتوں پر اللہ کے احکام کو نافذ کیا یا اللہ کے احکام کو نافذ کرنے میں غفلت سے کام لیا۔ ایک دوسری حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مضمون کو اور واضح انداز میں یوں ارشاد فرمایا: ’’تم میں ہر ایک نگراں و محافظ ہے اور تم میں سے ہر ایک سے ان لوگوں کی بابت پوچھ ہوگی جو تمہاری نگرانی و سرپرستی میں ہوں گے امیر بھی نگراں ہے اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھ ہوگی اور آدمی اپنے اہل خاندان کا نگراں ہے اور بیوی اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی نگراں ہے پس تم میں سے ہر ایک نگراں ہے او رزیر نگرانی لوگوں کی بابت تم میں سے ہر ایک سے پوچھ ہوگی‘‘۔(مسلم)
چونکہ شوہر بیوی اور اولادسے خاندان کا قیام عمل میں آتا ہے اور مختلف خاندانوں سے معاشرہ وجود میں آتا ہے اس لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے کے بنیادی افراد کی تربیت کی تاکید کی ہے اور ارشاد فرمایا:
اَکْرِمُوْا اَوْلَادَکُمْ وَ اَحْسِنُوْا اَدَبَھُمْ
تم اپنی اولاد کے ساتھ رحم و کرم کا برتاؤ کرو اور انہیں حسن ادب سکھاؤ(ابن ماجہ)
اور دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا
کوئی باپ اپنی اولاد کو حسن ادب سے بہتر کوئی تحفہ نہیں دے سکتا۔
ان احادیث میں حسن ادب سے مراد بہترین تعلیم و تربیت ہے۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد اسکا اچھا نام رکھیں، عقیقہ کریں ، بچہ بولنا شروع کرے تو کلمہ سکھائیں اور سمجھنے کے قابل ہوجائیں تو انبیاء اور صلحاء کے نصیحت آموز و اقعات سنائیں، سات سال کو پہونچ جائے تو نماز کا شوق دلائیں اور دس سال میں نماز ترک کرنے پر سزادیں تاکہ اسے احساس ہو کہ اگر نماز کی پابندی نہیں کرے گا تو والدین کی شفقتوں سے محروم ہوجائے گا۔
اولاد کی تربیت کے اثرات صرف دنیاوی زندگی تک محدود نہیں رہتے بلکہ مرنے کے بعد اولاد کے نیک اعمال اور دعاؤں کا ثواب والدین کو ملتا رہتا ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ
جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہو جاتا ہے مگر تین قسم کے اعمال کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے ایک یہ کہ مرنے سے پہلے صدقہ جاریہ کرجائے دوسرا یہ کہ ایسا علم چھوڑ جائے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں تیسرا یہ کہ آدمی کی تربیت کے نتیجے میں اولاد نیک بنے اور اپنے مربی کے لئے دعا کرے۔(ترمذی)
اسی طرح لڑکیوں کی تربیت سے متعلق فرمایا کہ
جس نے تین لڑکیوں کی سرپرستی کی اور انہیں تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا اور ان کے ساتھ رحم کا سلوک کیا اور ان کی شادی کی تو ایسے شخص کے لئے اللہ نے اپنے اوپر جنت واجب کرلی ایک شخص نے سوال کیا کہ اگر کسی کے پاس دوہی لڑکیاں ہوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا دو لڑکیوں کی سرپرستی، تعلیم و تربیت اور گھر والی بنانے کا بھی یہی اجر ہے۔(احمد)
راوی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی ایک لڑکی کے متعلق پوچھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہی جواب دیتے ۔ اسی طرح ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا
جو شخص ان لڑکیوں کے امتحان میں ڈالا گیا اور اس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو یہ لڑکیاں اس کے لئے جہنم سے اوٹ بن جائیں گی‘‘۔(ترمذی)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ صالح معاشرہ کے قیام کے لئے جہاں اولاد کی تعلیم و تربیت ناگزیر ہے وہیں آخرت کی کامیابی بھی اسی پر موقوف ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے تمام مومنین کو مخاطب کرکے فرمایا[Quran 66 6-6 ur]
احیاء العلوم میں امام غزالیؒ لکھتے ہیں کہ
’’ دنیا کی آگ سے باپ اپنے بچہ کو بچاتا ہے تو بطریق اولیٰ اس پر لازم ہے کہ آتش جہنم سے بھی اسے بچائے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ بچہ کو اسلامی تہذیب سکھائے ۔ محاسن اخلاق کی تعلیم دے ، احکام دین سے اسے آگاہ کرے‘‘۔