And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided…(3:103)

گناہوں سے اجتناب

Posted by:

|

On:

|

’’عَنْ عَبْداﷲِ ؓ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ أَیُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ ۔ قَاَلَ أَنْ تَجْعَلَ لِلّٰہِ نِدّا وَ ھُوَ خَلَقَک، ثُمَّ قَاَلَ أَیُّ۔ قَالَ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ خَشْیَۃَ أَنْ یَأکُلَ مَعَکَ۔ قَالَ ثُمَّ أَیُّ قَالَ أَنْ تُزَانِیَ حَلِیْلَۃَ جَارِکَ‘‘(بخاری کتاب الادب، بحوالہ: جواہر الحدیث صفحہ:۱۳۴)


ترجمہ: حضرت عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا۔ کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ فرمایا: تمہارا اللہ کو ہمسر ٹھہرانا جب کہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ میں نے پوچھا اس کے بعد کون سا ؟ فرمایا تمہارا اپنی اولاد کو قتل کرنا اس اندیشہ سے کہ وہ تمہارے کھانے میں شریک ہوگی۔ میں نے پوچھا اس کے بعد کون سا ؟ فرمایا اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرنا ۔

ایک دوسری حدیث میں ہے : ’’حضرت ابو بکرؓ فرماتے ہیں ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا : کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑے گناہ یہ ہیں (۱) اللہ کا شریک ٹھہرانا (۲) والدین کے ساتھ بُرا سلوک کرنا اور(۳)جھوٹی گواہی دینا‘‘ (بخاری کتاب استنابۃ المرتدین ،بحوالہ: جواہر الحدیث۱۳۵)
اس حدیث میں والدین کے ساتھ برا سلوک کرنا اور جھوٹی گواہی دینے کو بھی کبیرہ گناہوں میں شامل کیا گیا ہے۔
(۱) شرک کی ایک قسم تو یہ ہے کہ انسان خدا کی ذات میں کسی ہستی کو شریک کرے۔ دوسر ی قسم یہ ہے کہ خدا کی صفات جو صرف اللہ کے لئے مخصوص ہیں ان سے اللہ کے علاوہ دوسروں کو متّصف کرے ۔ تیسری قسم یہ ہے کہ خدا کے حقوق دوسروں کو دے یعنی اللہ کے علاوہ دوسروں کی بندگی کرنا ، پاکیزگی بیان کرنا، سرجھکانا اور اس کی اطاعت کرنا ۔
تیسری قسم کا شرک بہت عام ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ ’’أفَرَأیْت مَنِ اتَّخذَ اِلٰھَہٗ ھَواَ ہُ‘‘ کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو خدا بنا رکھا ہے ۔ یعنی ہر کام میں وہ صرف اپنے نفس کے حکموں کی تعمیل کرتا ہے۔ایک حدیث میںہے کہ ’’اس آسمان کے نیچے اللہ کے سوا جتنے معبود بھی پوجے جارہے ہیں اُن میں اللہ کے نزدیک بدترین معبود وہ خواہش نفس ہے جس کی پیروی کی جارہی ہے (طبرانی)یعنی خواہش نفس کو خدا بنالینے سے مراد اس کی بندگی کرنا ہے اور یہ بھی حقیقت کے اعتبار سے ویسا ہی شرک ہے جیسا بت پرستی یا کسی مخلوق کو معبود بنانا ہے۔ جو شخص اپنی خواہش کو عقل کے تابع رکھتا ہو اور عقل سے کام لے کر فیصلہ کرتا ہو کہ اس کے لئے صحیح راہ کون سی ہے اور غلط کون سی ۔ وہ اگر کسی قسم کے شرک یا کفر میں مبتلا بھی ہو تو اس کو سمجھا کر سیدھی راہ پر لایا جاسکتا ہے ، اور یہ اعتماد بھی کیا جاسکتا ہے کہ جب وہ راہ راست اختیار کرنے کا فیصلہ کرے گا تو اس پر ثابت قدم رہے گا۔ لیکن نفس کا بندہ اور خواہشات کا غلام ایک شتر بے مہارہے۔ اسے تو اس کی خواہشات جدھر جدھر لے جائیں گی وہ ان کے ساتھ بھٹکتا پھرے گا۔
(۲) کسی بھی وجہ سے اور کسی بھی شکل میں اولاد کا قتل کرنا بھی کبیرہ گناہ ہے۔ مفلسی کے اندیشہ سے اپنے بچے کو قتل کرنا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی انسان کو ناحق قتل کرنا چھوٹا اور معمولی گناہ ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں کسی انسان کو بھی ناحق قتل کرنا حرام ہے اور بہتر بڑا جرم ہے ۔ قرآن مجید میں ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ ’’مَنْ قَتَل نَفْساً بِغَیْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرضِ فَکَأَنَّماَ قَتَلَ النَّاس جَمِیْعاً وَ مَنْ أحْیَاھَا فَکَأَنَّمَا أَحیَا الناسَ جَمِیْعاً‘‘ (سورۃ المائدہ آیت:۳۲)
ترجمہ: جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی۔ اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی‘‘۔ جو شخص افلاس کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل کرتا ہے وہ دو وجوہ کی بنا پر نہایت سنگین مجرم ہے : اول یہ کہ اس کے رویہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید اسے اللہ تعالیٰ کے رازق ہونے پر یقین نہیں ہے ۔ دوم یہ کہ اپنی ہی لخت جگر کے خون سے اپنے ہاتھ کو رنگین کرنا انتہا درجہ کی سنگدلی اور درندگی ہے اس لئے شرک کے بعد اسے سب سے بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے ۔ جاہلیت کے زمانہ میں تنگدستی اور ناداری کے خوف سے لوگ اپنے بچوں کو قتل کردیتے تھے ۔ جو شخص تنگدستی کے خوف سے اپنے بچے کو قتل کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی شان ِ رزاقی پر بے اعتمادی کا اعلان کرتا ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’تم اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے‘‘۔ (سورۃ الانعام: ۱۵۱، الاسراء :۳۱)
آج کل مانع حمل (برتھ کنٹرول ) کی تحریک ، خاندانی منصوبہ بندی کے دلفریب عنوان سے عوام کو فریب میں مبتلا کررہی ہے، بظاہر یہ پرکشش نظریہ بے ضرر پرکشش اور سود مند محسوس ہوتا ہے ۔لیکن اگر اس کے مضمرات پر غور کیا جائے تو اس کے سایہ میں عیاشی اور بدکاری کا وسیع جال نظر آئے گا۔ اس تحریک کے نتیجہ میں نسل انسانی کی افزائش تو رُکی نہیں۔ البتہ بے حیائی اور فحاشی کو بہت فروغ حاصل ہوا ہے ۔ استقرار حمل کا خوف بے راہ روی میں رکاوٹ بنتار ہا ہے لیکن ترقی یافتہ جاہلیت کی اس تحریک نے مانع حمل آلات اور ادویہ ایجاد کرکے اخلاقی مریضوں کو اس خوف سے نجات دلادی ہے۔
(۳) پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنا ۔شرک اور قتل اولاد کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔ مسلمان کو مسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنے پڑوسی کی عزت و آبرو کا نگہبان ہونا چاہئے ۔ اگر کوئی شخص اس کے پڑوسی کی آبرو کو میلی آنکھ سے دیکھے تو یہ اس کی آنکھ ہی پھوڑ دے لیکن اگر وہ خود ہی اس کی آبرو کا دشمن بن جائے تو وہ نہ صرف یہ کہ گناہ گار ہے بلکہ حسب ذیل وجوہ کی بنا پر بہت بڑا گناہ گا رہے ۔(۱) اس نے زنا کا گناہ کیا(۲) اس نے اس اعتماد کو سخت مجروح کیا ہے جو پڑوسی نے اس پر کیا تھا۔(۳) پڑوسی کے گھر میں اپنی آمدو رفت اور کثرت میل جول سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے بھائی کی بیوی کو بہلا پھسلا کر یا خود اس کی دعوتِ گناہ کو قبول کرکے خیانت کی ہے۔
(۴) والدین کے ساتھ بُرا سلوک کرنا :۔ اس سلسلے میں بہت سی حدیثیں ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ ماں باپ کا نافرمان جنت میں نہ جائے گا۔ نیز والدین کی نافرمانی کرنے پر دنیا ہی میں سز ا ملتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’سارے گناہوں کی حیثیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے جس گناہ کو چاہے گا معاف فرما دے گا مگر ’’والدین کی نافرمانی کرنے ‘‘ کے متعلق اس نے فیصلہ کیا ہے کہ اس جرم کے مرتکب کو اس کی وفات سے پہلے دنیا میں سزا دے کر رہے گا۔ (مشکوٰۃ عن ابی بکرۃ کتاب الادب باب البر و الصلۃ)
(۵) جھوٹی گواہی دینا: جھوٹی بات کہنا ہر جگہ بُرا ہے چاہے کوئی عدالت کے اندر حاکم کے سامنے کرے یا کسی اور جگہ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’فاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْ ثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّوْرِ‘‘ پس بتوں کی گندگی سے بچو اور جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو(سورۃ الحج آیت: ۳۰)جھوٹی گواہی دینا کتنا بڑا گناہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اسے شرک کے برابر قرار دیا ہے ’’خریم بن فاتکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے صبح کی نماز پڑھائی ،سلام پھیرنے کے بعد آپﷺ سیدھے کھڑے ہوگئے اور فرمایا ’’جھوٹی گواہی دینا اور شرک کرنا دونوں برابر ہیں‘‘ یہ جملہ آپ ﷺنے تین بار دہرایا، پھر آپ ﷺ نے ’’فاجتنبوا الخ‘‘ تم گندگی سے یعنی بتوں سے دور رہو اور جھوٹی بات کہنے سے ۔ خدا کے لئے یکسو ہو جاؤ شرک چھوڑ کر توحید اختیار کرو ۔(ابوداؤد)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمام کبائر و صغائر گناہوں سے محفوظ رکھے اور قرآن و سنت کے مطابق ہمیں پوری زندگی گذارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *