And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided…(3:103)

عصبیت

Posted by:

|

On:

|

’’عَنْ جُبَیْرِبْنِ مُطْعِمٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ ’’لَیْسَ مِنَّامَنْ دَعَا اِلیٰ عَصَبِیَۃٍ وَ لَیْسَ مِنَّا مَنْ قَاتَلَ عَصَبِیَّۃً وَ لَیْسَ مِنَّا مَنْ مَاتَ عَلیٰ عَصَبِیَّۃٍ‘‘(ابوداؤد)


جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی دعوت دے ۔ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کے جذبے سے جنگ کرے اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر مرے‘‘۔

عصبیت یا تعصب کے لغوی معنی باندھنے ۔ لپیٹنے۔ یا دو چیزوں کے درمیان ربط پیدا کرنے کے ہیں۔ اسی سے ملتا جلتا ایک لفظ حمیت ہے جس کے معنی مدافعت کرنا بچانا اور ساتھ دینا ہے۔ عرف عام میں عصبیت یا تعصب بیجا یا ناحق طرفداری کا نام ہے جو بہت بڑی اخلاقی برائی اور معصیت ہے۔ حمیت اگر اسلامی حدود کے اندر ہو تو پسندیدہ صفت ہے لیکن اگر جاہلی حمیت ہو تو وہ بھی عصبیت ہی ہے۔صراط مستقیم سے ہٹانے، انصاف کا خون کرنے اور حق کو حق سمجھ کر ٹھکرادینے میں عصبیت کا بڑا دخل ہے۔
رسول اکرم ﷺ کے پیارے چچا جنہوں آپﷺ کی باپ کی طرح پرورش کی آپ ﷺ کی حفاظت او رطرفداری کی خاطر قریش کے تمام دوسرے خاندانوں کی دشمنی مول لے لی۔ ہمیشہ ایک سایہ دار درخت کی طرح آپ کے سرپر سایہ فگن رہے۔ اپنے بچوں کو اسلام کا خادم بنادیا۔ لیکن خود اسی جاہلی عصبیت کی وجہ سے زندگی کے آخری لمحات تک ایمان نہ لا سکے اور علی ملّۃ عبدالمطلب کہہ کر وفات پائی۔
عصبیت کا یہ زہر کئی رنگ اختیار کرتاہے ۔ کبھی یہ نسلی اور خاندانی حمیت جاہلانہ کا روپ دھارتا ہے۔ کبھی انسان کو لسانی تعصب میں مبتلا کرتا ہے۔ کبھی وطنی اور علاقائی بنیادوں پر انسانوں کو بانٹتا ہے۔ کبھی جماعتی ، گروہی اور مسلکی شراب پلا کر مدہوش کرتا ہے۔ کبھی ذات پات برادری اور طبقاتی حد بندیوں کی حفاظت کا روپ دھارتا ہے۔ دور حاضر میں پیشہ ورانہ اور صنفی عصبیت بھی کافی مقبول ہورہی ہے۔
اسلام نے اپنے نفس کا حق ادا کرنا اور جان و مال کی حفاظت کرنا فرض قرار دیاہے۔ اسی طرح صلہ رحمی کو ایمان کی پہچان اور قطع رحمی کو سخت گناہ قرار دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر خود حفاظتی اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کا جذبہ وافر مقدار میں رکھا ہے۔ لیکن جب یہ جذبات ناحق کی طرفداری اور جاہلی حمیت کا رنگ اختیار کرلیتے ہیں تو کھلی معصیت بن جاتے ہیں۔
جو شحص باطل یا ناجائز کا موں میں اپنے قبیلہ یا کنبہ و خاندان یا قوم کا ساتھ دیتا ہے ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اونٹ کنویں میں گررہا ہواور ایک شخص اس کی دم پکر کر کھینچ رہا ہو تو اونٹ کے ساتھ وہ شخص بھی کنویں میں گرے گا۔(ابوداؤد)
عصبیت دراصل اسلام کی بنیادی تعلیم وحدت الہ اور وحدت آدم کی ضدہے۔

يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَ تْقٰكُمْ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ (13)


Quran Ayah Data not found….for Surah:49, Ayah:13 and Translation:93

Quran Surah:49 Ayah:13

’’ اے انسانوں ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں گروہوں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو! بیشک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اللہ سے زیادہ ڈرتا ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ سب جاننے والا اور باخبر ہے ‘‘۔(الحجرات:۱۳) انسانی گروہوں کی ساری تقسیم ایک دوسرے کی پہچان کے لئے ہے۔ نہ ان میںکوئی برتر ہے نہ کم تر ۔ جو اللہ سے ڈرے وہی بہتر ہے۔ بحیثیت انسان سب برابر ہیں۔ اسلام ایمان و اطاعت میں خلوص کی دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے ’’وَمَا اُمِرُوْ اِلاَّ لِیْعَبُد وااﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ حُنَفَائَ‘‘ (سورہ بینہ:۵) اور انہیں صرف اسی بات کا حکم دیا گیا ہے کہ یکسو ہوکر صرف اللہ کی عبادت کریں۔یا احادیث میں تکمیل ایمان کا یہ طریقہ بتلایا گیا ہے۔ ’’اس نے ایمان کو مکمل کرلیا جو اللہ کو اپنا رب، اسلام کو اپنا دین، اور محمدﷺ کو اپنا رسول مان کر راضی ہوگیا‘‘۔دوسری جگہ ارشاد ہے۔’’خدا کی قسم کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میری ذات اس کے نزدیک اُس کے بیٹے باپ اور دنیا کے تمام انسانوں سے محبوب نہ ہو جائے‘‘ ۔
اس کے برخلاف عصبیت اﷲاوررسول کی محبت اور اس کی رضا کو چھوڑ کر وطن ، خاندان، گروہ ، زبان جیسی چیزوں کی محبت دل میں بٹھاتاہے اور اسی کی خاطر ایثار و قربانی پر آمادہ کرتاہے۔
اسلامی تعلیم ہے :’’کلّھُمْ مِنْ آدَمَ وَ آدَمَ مِنْ تُرابٍ‘‘ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔’’اَلْخَلْقُ عَیَال اﷲ‘‘ تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے جبکہ عصبیت وحدت آدم کی نفی کرتی ہے وہ انسانوں کو طبقات میں تقسیم کرتی ہے۔ اور طبقہ کے مفاد کو انسان کا مقصد قرار دیتی ہے۔
محمد عربیﷺ نے حجۃ الوداع کے خطبے میں صاف صاف اعلان فرمایا تھا کہ آج دور جاہلیت کی ہر عصبیت میرے پاؤں تلے ہے۔ ’’اے لوگو! کیا تمہارا رب ایک نہیں، تو کسی عربی کو عجمی پر کسی عجمی کو عربی پر فضیلت نہیںہے۔ نہ کسی کالے کو کسی لال پر نہ کسی لال کو کسی کالے پر سوائے تقویٰ کے فضیلت ہے۔ بیشک تم میں بزرگ وہی ہے جو اللہ سے زیادہ ڈرتا ہے‘‘۔
عصبیت ایک گناہ یا نافرمانی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ کئی گناہوں کا مجموعہ ہے۔
اول: یہ کہ متعصب انسان خدا کی رضا نہیں بلکہ قوم قبیلہ گروہ اور طبقہ کی رضا چاہتا ہے جو سراسر شرک ہے۔دوم: یہ کہ متعصب انسان اپنے گروہ کے علاوہ سب سے نفرت کرتا ہے اور سب کا برا چاہتاہے۔سوم: یہ کہ اس کا سینہ حسد سے بھرا ہوتا ہے ۔چہارم: یہ کہ جذبہ عصبیت اس کو انصاف کی راہ سے ہٹا دیتی ہے۔پنجم : وہ عصبیت کی وجہ سے ظلم پر آمادہ ہوجاتاہے۔
ششم : عصبیت اس کو اندھا کردیتی ہے اور وہ خیروشر کی راہوں میں تمیز کرنے سے محروم ہوجاتا ہے۔
اسلام نے قومیت کی جو بنیاد فراہم کی ہے وہ صرف ایک ہے۔ وہ وحدت الہ ہے ۔ ایمان اور اسلام ہے۔

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ارْكَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوْا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۩ (77) وَجَاهِدُوْا فِى اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِه هُوَ اجْتَبٰكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِى الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ هُوَ سَمّٰكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِىْ هٰذَا لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِيْدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ ۖ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰهِ هُوَ مَوْلٰكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلٰى وَنِعْمَ النَّصِيْرُ (78)


Quran Ayah Data not found….for Surah:22, Ayah:77 and Translation:93

Quran Surah:22 Ayah:77-78

’’ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو اور جہاد کا حق ادا کرو ۔ وہی ذات ہے جس نے تمہیں چنا اور تمہارے لئے تمہارے دین میں کوئی تنگی نہیں پیدا کی۔ تم اپنے باپ ابراہیم کی ملت ہو۔ انہوں نے تمہیںمسلمین کا نام دیا ہے۔ اس سے قبل بھی اور آج بھی تمہارا وہی نام ہے تاکہ رسول تم پر شہادت کا حق ادا کرے اور تم لوگوں پر گواہ بنو۔ تو نماز قائم کرو زکوٰۃ دو اور سب مل کر اللہ سے جڑے رہو وہی تمہارا مولیٰ ہے ۔ کتنا اچھا مالک اور کتنا اچھا مددگار ہے ۔(الحج:۷۸)حضور ﷺ کی سیرت اس بات پر شاہد ہے کہ آپ نے امت کی وحدت کو ہمیشہ ایمان اور اسلام کی بنیاد پر قائم رکھا اور جب کبھی اس وحدت میں کسی نے رخنہ پیدا کرنا چاہا آپ نے فوراً بلا تاخیر اس کا تدارک کیا اور کسی قسم کی عصبیت کو دل میں پنپنے کا موقع نہیں دیا۔ عربوں میں جاہلی عصبیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بنو ہاشم میں نبیﷺ کے ظہور کی وجہ سے قریش کے تمام دوسرے خاندان بنو ہاشم کے دشمن ہوگئے یہاں تک کہ انہوں نے مل کر بنو ہاشم کا بائیکاٹ کردیا اور اسی خاندانی عصبیت کی وجہ سے بنو ہاشم نے آپ کی مدد کی حالانکہ وہ سب کے سب ایمان نہیں لائے تھے۔یہودی اور عیسائی مدت سے آخری نبی کے منتظر تھے ان کی کتابوں میں اس کی خبر دی گئی تھی۔ مگر جب وہ نبیؐ اٰل اسماعیل میں پیدا ہوا تو انہوں نے اس نبیؐ کا صرف تعصب کی وجہ سے انکار کیا۔مدینہ میں یہودیوں نے اور منافقین نے کئی بار اوس وخزرج کی دشمنی کو پرانے قصے سنا سنا کر ابھارنا چاہا۔ ایک بار تو تلواریں نکل آئیں مگر محمدﷺ کی پر اثر تقریر نے ان کو ٹھنڈا کردیا۔ اسی تعصب نے ایک بار انصار کو مہاجرین کے خلاف بد دل کردیا مگر محمدﷺ کی فہمائش سے وہ راہ راست پر آگئے۔ حضور اکرمﷺ کی وفات کے بعد بھی اس تعصب نے سر ابھارا تھا اور ثقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہو کر انصار اپنے میں سے خلیفہ رسول چنا چاہتے تھے۔ ابو بکرؓ کی فہمائش پر بات ان کی سمجھ میں آئی۔
پیارے نبیﷺ نے کئی مواقع پر خو دآگے بڑھ کر ان عصبیتو ں کو توڑا اور ایک ایسا نمونہ پیش کیا جو قیامت تک انسانیت کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ آپ نے اپنی خاص پھوپھی زاد بہن سے زید ؓبن حارثہ کا نکاح کیا۔ زینب ؓ بنو ہاشم کی معزز خاتون تھیں زیدؓ ؓآزاد کردہ غلام تھے آپ نے زیدؓ کے بیٹے اُسامہؓ کو بڑے بڑے صحابہ کرام کے ہوتے ہوئے لشکر کا سردار بنایا اور ان معزز صحابہ کرام نے اُن کی قیادت میں جنگ لڑی۔ ان کے تربیت یافتہ صحابہ کرام بھی اسی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ سیدنا عمرفاروق ؓبلالؓ کو سیدنا( ہمارے آقا) کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ انہوں نے صہیب رومیؓ کو شہادت سے قبل دوران جراحت مسجد نبوی میں امامت کے لئے کھڑا کیا۔ اور عمرؓ آخری وقت میں فرماتے تھے کہ آج اگر ابو حذیفہؓ کے ﷺغلام سالم ؓ زندہ ہوتے تو میں ان کو خلافت کے لئے نامزد کرتا۔
مہاجرین جب اپنا مال و متاع ، بال بچے اور وطن چھوڑ کر بے سروسامانی کی حالت میں مدینہ پہونچے تو انصار نے سگے بھائیوں سے بڑھ کر ان کی مدد کی اپنے ساتھ رکھا ۔ گھردیا، تجارت میں شریک کیا، کھیتی باڑی کی زمینیں دیں اور مہاجرین کو بے وطنی اور کسمپری کا احساس تک نہ ہونے دیا۔دراصل ایمان و اسلام کی بنیاد پر جو برادری قائم ہوتی ہے اس کا ہر فرد حبل اللہ کی مضبوط ڈور سے جڑا ہوتا ہے۔ ان کا تعاون ، ایثار اور قربانی صرف رضائے الٰہی کے لئے ہوتا ہے۔ جب اللہ کا رنگ ان پر چڑھ جاتا ہے تو سارے عارضی رنگ دھل جاتے ہیں ۔ ان سب عارضی رنگوں میں تعصب بہت بُرا رنگ ہے۔
خدا بیزار لوگ ہمیشہ ان تعصبات کو ابھارتے رہے ہیں۔ آج بھی مغربی اقوام نے پوری دنیا میں ملکی، قومی، لسانی، نسلی، طبقاتی اور مذہبی تفریق کا صور پھونک رکھاہے۔ انہیں بنیادوںپر قومیں ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں۔ خود ہمارا ملک بھارت ، صوبائی ، لسانی، ذات برادری اور مذہبی نفرتوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ ووٹ کی سیاست اُسے مزید ہوا دے رہی ہے ۔ ان نفرتوں نے اب جنوں کی شکل اختیار کرلی ہے اور مختلف سینائیں بزور طاقت ایک دوسرے کو مٹانے کے درپے ہیں۔ نکسل وادی ، بوڈو فورس، ببر خالصہ، بجرنگ دل، شیوسینا، اور پتہ نہیں کتنی سینائیں ہیں جو جاہلی تعصبات کی پیداوار ہیں۔ اس وقت انہیں اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے کی اشد ضرورت ہے۔
ذات اور برادری کی تفریق کو مٹا کر
آدم کی ذریت کو بھائی بہن بنانا
مسلک کی حیثیت سے پہچان نامناسب
ہر رنگ کو مٹا کر اللہ کا رنگ چڑھانا
رنگ و نسل کی نفرت ہے رسم جاہلانہ
ہر جاہلی عداوت جڑ سے سدا مٹانا
فرقہ گروہ بندی یہ دیش کا تعصب
شیطاں کا مکرو فتنہ اللہ ہمیں بچانا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *