وَاتْلُ مَاۤ اُوْحِىَ اِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِه وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِه مُلْتَحَدًا (27) وَاصْبِرْ نَـفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِىِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْهُمْ تُرِيْدُ زِيْنَةَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هٰوهُ وَكَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا (28)
Quran Ayah Data not found….for Surah:18, Ayah:27 and Translation:93
Quran Surah:18 Ayah:27-28
ترجمہ: ’’اے نبی ﷺ، تمہارے رب کی کتاب میں سے جو کچھ تم پر وحی کیا گیاہے اسے (جوں کا توں) سنادو، کوئی اُس کے فرمودات کو بدل دینے کا مجاز نہیں ہے، (اور اگر تم کسی کی خاطر اس میں ردّوبدل کرو گے تو) اس سے بچ کر بھاگنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پاؤ گے اور اپنے دل کو اُن لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اُسے پکارتے ہیں، اور اُن سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو؟ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہو‘‘۔
ان آیات سے پہلے اصحاب کہف کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ یہ واقعہ دراصل سردارانِ قریش کے سوال کے جواب میں سنایا گیاہے۔ اس کے ذریعہ جہاں نبی کریم ﷺ کے نبوت کا اثبات مقصود ہے۔ وہیں ہجرت سے قبل مکہ کے سنگین حالات میں اہل ایمان کو یہ پیغام دینا بھی مطلوب ہے کہ عقائد حقہ پر استقامت کی خاطر اپنی ذات کو قربان کرنا ہمیشہ سے اہل حق کا شیوہ رہا ہے ۔ اس کے بعد ان آیات میں مکہ کے مخصوص حالات میں کچھ ہدایات دی گئی ہیں۔ آج کے حالات بھی کچھ ملتے جلتے ہیں اس لئے ہمارے لئے بھی ان آیات کے اندر بڑی رہنمائیاں ہیں۔ چند کی طرف نشاندھی کی جارہی ہے۔
(۱) دشمنان اسلام اہل ایمان کو مٹانے کے لئے جب ہر طرح کے حربے استعمال کرکے تھک جاتے ہیں تو ان کی یہ چال سامنے آتی ہے کہ کچھ مصالحت اور مداہنت کی باتیں شروع کردیتے ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ ایک قدم آگے بڑھیں تو اہل ایمان بھی ایک قدم نیچے اتریں اور ان کی کچھ باتوں کو تسلیم کریںچنانچہ سردارانِ قریش کی طرف سے اس طرح کے مطالبے بھی آئے کہ
وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيَاتُنَا بَيِّنٰتٍ قَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ هٰذَاۤ اَوْ بَدِّلْهُ قُلْ مَا يَكُوْنُ لِىْۤ اَنْ اُبَدِّلَهٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَـفْسِىْ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰۤى اِلَىَّ اِنِّىْۤ اَخَافُ اِنْ عَصَيْتُ رَبِّىْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ (15)
Quran Ayah Data not found….for Surah:10, Ayah:15 and Translation:93
Quran Surah:10 Ayah:15
’’اس قرآن کے علاوہ کوئی دوسرا لاؤ یا اس میں کچھ تبدیلی کردو‘‘ ۔ تو گویا ہم تمہارے ساتھ آسکتے ہیں۔ ان کی اس طرح کی پیشکش کو ان آیات میں رد کیا گیا ہے اور واضح ہدایت دی گئی ہے کہ جو کچھ وحی کی گئی ہے وہی ان کو سناؤ اس میں ردوبدل کا کسی کو کوئی اختیار نہیں ہے اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کی گرفت کی جائے گی اور اللہ کی گرفت سے کوئی بچ کر بھاگ نہیں سکتا۔ آج بھی اسلامی تعلیمات پر بہت سے اعتراضات کئے جاتے ہیں اور ان میں تبدیلی کے مطالبے سامنے آتے ہیں۔ بعض بھولے بھالے حالات اور زمانے کے تقاضوں کے تحت انہیں تسلیم کرنے کی بات بھی شروع کردیتے ہیں ۔ لیکن دین میں اس کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ دینی معاملات میںاللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کسی کو کوئی اختیار نہیں۔اس لئے اس طرح کے سارے مطالبات ٹھکرا دینا چاہئے ۔
(۲) دوسری بات جو ان آیات کے اندر بتائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جب اس طرح کی پیشکش سامنے آتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ دشمنوں کے دل کچھ نرم پڑ رہے ہیں اور ان پر خصوصی توجہ صرف کی جانی چاہئے ۔ یقینا خصوصی توجہ دینی چاہئے لیکن اس کے نتیجہ میں ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ جو لوگ پہلے سے ساتھ ہیں اور جن کی تعلیم و تربیت اور تزکیہ پر توجہ ضروری ہے وہ نظر انداز ہو جائیں کیونکہ جنہوں نے اپنے آپ کو حوالے کردیا گرچہ وہ سماجی و معاشرتی اعتبار سے دبے کچلے تھے لیکن ساتھ آجانے کے بعد وہ ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں اور انہیں کسی بھی حال میں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ مختلف جماعتیں اور تحریکات جو غلبہ اسلام کے لئے کوششیں کررہی ہیں ان کے لئے اس میں بڑا پیغام ہے کہ ان کی توجہات صرف باہر والوں ہی پر مرکوز نہیں رہنی چاہئے ۔ بلکہ جو لوگ ساتھ آچکے ہیں ان کی ترقی اور تزکیہ کا سامان بھی انہیں کماحقہ کرنا چاہئے ۔
(۳) دوسری ہدایت کے ساتھ ایک تیسری بات یہ بھی سمجھائی گئی کہ جو لوگ کچھ مصالحت کی باتیں کررہے ہیں ان کی باتیں تسلیم نہ کرنے کے کچھ معقول اسباب ہیں ان پر بھی نظر رہنی چاہئے پہلا سبب تو یہ ہے کہ ان کا کبرو غرور ابھی ختم نہیں ہوا۔ انہوں نے ابھی اللہ کی کبریائی کو تسلیم نہیں کیا تبھی تو وہ اللہ کے ذکر سے غافل ہیں اور جو دل اللہ کے ذکر سے غافل ہو وہ اللہ کی بندگی کا حق بھلا کیسے ادا کرسکتا ہے ؟ دوسرا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ جو خواہشات نفس کی قربانی نہ دے سکتا ہووہ اللہ کی پیروی کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ تیسرا سبب یہ بتایا گیا کہ ان کے معاملات افراط و تفریط اور بے اعتدالی پر مبنی ہیں اور بے اعتدالی ہمیشہ گڑھے کی طرف لے جاتی ہے ۔ اس لئے ان کے پیچھے نہیں چلا جاسکتا اور ان کی بات تسلیم نہیں کی جاسکتی۔ ہمیں بھی اس طرح کی پیشکش کر نے والوں کے سلسلے میں جائزہ لینا چاہئے اور ان پہلوؤں پر نظر رکھنی چاہئے۔ اگر یہ صورت حال نظر آتی ہے تو رد کردینا چاہئے اور اگر واقعی تبدیلی نظر آتی ہے تو خوش آمدید کہنا چاہئے ۔
(۴)اس ضمن میں یہ تنبیہ بھی کی گئی ہے کہ ان کی سرداری اور خوشحالی کو دیکھ کر اس کی لالچ میں کوئی قدم اٹھانا خود تمہارے ایمان کو ضائع کردے گا۔ اس لئے کبھی ان چیزوں پر نظر رکھ کر کوئی فیصلہ نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ ہمیشہ یہ دیکھنا چاہئے وہ خلوص کے ساتھ آرہے ہیں یا نہیں؟ اور اپنے آپ کو غیر مشروط طور پر پورے کا پورے اسلام کے حوالے کرنے کو تیار ہیں یا نہیں؟ اگر رضائے الٰہی او رکامل سپردگی کا جذبہ نظر آتا ہے تووہ قابل قدر ہیں اور انہیں فوراً چمٹا لینا چاہئے ۔
اللہ ان تمام پیغامات پر ہم سب کو عمل کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین۔