عَنْ اَبِیْ مَالِک الْحَارث بنِ عَاصمٍ الاشَعَریّ رَضی اﷲُ عَنْہٗ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ الْقُرْآنُ حُجَّۃٌ لَکَ اَوْ عَلَیْکَ‘‘(رواہ مسلم)
ترجمہ : حضرت ابو مالک اشعری ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قرآن تیرے حق میں حجت ہے یا تیرے خلاف حجت ہے۔ (مسلم )
قرآن تیرے لئے حجت ہے یا تیرے خلاف حجت ہے۔ یعنی قرآن اپنے حقوق کی ادائیگی کرنے والے کی سفارش کرکے مغفرت کرائے گا او راپنے حقوق کے ضائع کرنے والے کو جہنم رسید کرادیگا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’قرآن سفارشی ہے جس کی سفارش قبول کی جائے گی اور ایسا مدعی ہے جس کا دعویٰ تسلیم کیا جائے گا جس نے اسے اپنے آگے رکھا(اس پر عمل کیا ) اس کو جنت کی طرف لے جائے گا اور جس نے اسے پس پشت ڈالا اسے دوزخ میں گرادیگا۔ (ابن حبان) یعنی جس نے قرآن کے حقوق کی رعایت کی اور اس کے احکام پر عمل کیا اس کے درجات بلند کرانے اور اسے بخشوانے کے لئے اللہ کے دربار میں قرآن مجید جھگڑا کرے گا ایسے شخص کے لئے قرآن مجید حجت اور دلیل ہے اور جس نے قرآن مجید کے حقوق کی ادائیگی میں لاپرواہی کی۔ قرآن مجید ایسے شخص کے مدِّ مقابل کھڑا ہوگا اور اس کے خلاف دعویٰ کرکے جہنم رسید گرادیگا۔
ابو موسی اشعریؓ سے مروی ہے:بے شک یہ قرآن تمہارے لئے اجر بن سکتا ہے اور عذاب کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے ۔ لہٰذا تم قرآن کی تابعداری کرو اور ایسا نہ ہو قرآن (تمہارا مخالف بن کر پکڑوانے کے لئے ) تمہارے پیچھے لگے کیونکہ جو شخص قرآن کی تابعداری کرتا ہے قرآن اس کو جنت کے باغیچوں میں پہنچا دیتاہے اور قرآن جس کا پیچھا کرتا ہے اس کی گدی پکڑ کر دوزخ میں گرا دیتا ہے ۔ (حلیۃ الاولیائ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کا صرف پڑھ لینا ہی نجات کے لئے کافی نہیں بلکہ اس پر عمل کرنا اشد ضروری ہے ۔قرآن مجید جس طرح اخروی زندگی میں یاتو اپنے قاری کے بلندی درجات اور اللہ کی رحمت و بخشش اور نوازشات کا سبب ہے یا اس سے بے اعتنائی اور غفلت برتنے والے کی ہلاکت و تباہی اور اللہ کی ناراضگی اوراس کے عذاب کا موجب ہے اسی طرح دنیا وی زندگی میں قرآن مجید یا تو اپنے قاری کی عزت و سربلندی اور مصائب و مشکلات سے رہائی کا سبب ہے یا اس سے بیزاری اور عدم دلچسپی رکھنے والے کی ذلت ور سوائی اور تنگی اور بد حالی کی زندگی کا موجب ہے۔ اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعہ بعض لوگوں کو عروج عطا فرماتا ہے اور بعض کو ذلیل و رسوا کرتا ہے (مسلم)
حضرت عقبہ ؓ فرماتے ہیں ’’ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے۔ اچانک ہمیں زبردست تاریکی اور آندھی نے آلیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی پناہ مانگنی شروع کردی اور فرمایا ’’معوذتین کے ذریعہ اللہ کی پناہ مانگو کسی پناہ مانگنے والے کے لئے ان دو سورتوں سے بہتر کوئی سورت نہیں ‘‘۔(ابو داؤد)
قرآن مجید سے غفلت برتنے والوں پر دنیا میں اللہ تعالیٰ ایسا شیطان مسلط کردیتا ہے جو انہیں اس فریب میں رکھتا ہے کہ وہ راہ راست پر ہیں۔
Quran Surah:43 Ayah:36-37
اور جو شخص رحمان کے ذکر سے غفلت کرتا ہے ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں اور وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے اور پھر وہ شیاطین ایسے لوگوں کو راہ راست پر آنے سے روکتے ہیں وہ اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم راہ راست پر ہیں۔
قرآن سے اعراض کرنے والا دنیا میں تنگی اور پریشانی کی زندگی سے دوچار ہوگا اور قیامت کے دن اسے اندھا بنا کر اٹھایا جائے گا ’’وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکاً وَ نَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَعْمَیٰ‘‘ (سورہ طہٰ ۱۲۴)اور جو شخص میرے ذکر سے اعراض کرے گا اس کے لئے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن سے بے رخی اختیار کرنے والوں کو دنیا و آخرت دونوں جگہوں کی وعید سنائی ہے اور دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے متعلق فرمایا کہ وہ ایسے لوگوں کے خلاف اللہ رب العزت کی بارگاہ میں مقدمہ دائر کریں گے ’’وَ قَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ اِتَّخَذُوْ ا ھٰذَا الْقُرْآنَ مَھْجُوْراً‘‘ (الفرقان:۳۰) اور (قیامت کے دن ) رسول کہے گا ۔ اے میرے رب ! بے شک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا؟
مذکورہ آیات و احادیث سے معلوم ہوا کہ قرآن اپنے قاری کو اللہ کی رحمت و بخشش کا مستحق بنائے گا اور جولوگ اس سے بے اعتنائی اور غفلت برتتے ہیں ان کے خلاف حجت بن کر انہیں سزا دلوائے گا۔
اللہ ہمیں قرآن کی تلاوت کرنے اس کو سمجھنے اس میں تدبر کرنے اور اس کے احکام پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ قرآن کو ہمارا سفارشی بنائے اُسے ہمارے حق میں حجت بنائے ۔آمین