And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided…(3:103)

اعتدال کی راہ

Posted by:

|

On:

|

عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ سَرْجِسَ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ’’اَلسَّمْتُ الْحَسَنُ وَ التَّوْدَۃُ وَ الاِقْتِصَادُ جُزْئٌ مِنْ اَرْبَعٍ وَّ عِشْرِیْنَ جُزْئً امِّنَ النُّبُوَّۃِ‘‘(ترمذی)


ترجمہ:— حضرت عبداللہ ؓبن سرجس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’حسن کردار (نیک چال چلن) بردباری اور اعتدال و میانہ روی ، نبوت کا چوبیسواں حصہ ہے ‘‘۔

اس حدیث میں مندرجہ ذیل تین اہم صفات کو نبوت کا چوبیسواں حصہ قرا دیا گیا ہے :
(۱) حسن کردار یعنی نیک چال چلن
(۲) حلم و بردباری (۳) اعتدال و میانہ روی
مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اوصاف معمولی اور کم درجہ کے نہیں ہیں بلکہ یہ وہ اوصاف ہیں جو انبیاء علیہم السلام کی زندگیوں اور ان کی سیرت و کردار میں نمایاں تھیں، لہٰذا اُن کے بعد جو شخص بھی جس قدر انہیں اپنی سیر ت وکردار میں جگہ دے گا وہ اسی قدر فیضان نبوت سے فیضیاب سمجھا جائے گا ۔ بطور خاص اعتدال و میانہ روی مذکورہ تینوں صفات کا جامع ہے اعتدال و میانہ روی زندگی کے ہر معاملہ میں مطلوب ہے۔ دانشمند وہی ہے جو زندگی کے تمام معاملات میں افراط و تفریط کے بجائے معتدل طرز عمل اختیار کرے۔
کاموں میں اعتدال:
حضرت سہل بن سعد ساعدیؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا ’’کام کو اطمینان و متانت کے ساتھ انجام دینا اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی کرناشیطان کے اثر سے تعلق رکھتا ہے ‘‘(ترمذی )
دین میں اعتدال :
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے ’’دین آسان ہے ، اور دین کے سلسلے میں جو کوئی سختی کاطرز عمل اختیار کرتا ہے لازماً دین اس پر غالب آجاتا ہے۔ پس درست اعتدال کی روش اختیار کرو، خوش رہواور صبح و شام اور کچھ رات کے ایک حصے کے ذریعہ سے (اطاعت الٰہی میں) مدد کے طالب ہو‘‘۔ (بخاری)
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا ’’تم عمل اپنی طاقت کے مطابق اختیار کرو کیونکہ خدا (اجر دینے میں) نہیں تھکتا جب تک کہ تم (عمل کرتے کرتے ) نہ تھک جاؤ۔ تم یہ طرز عمل اس لئے بھی اختیار کرو کہ خدا کو وہ عمل پسند ہے ۔جس پر مداومت اختیار کی جائے اگرچہ وہ تھوڑا ہو ‘‘۔ اور آپؐ جب کوئی عمل اختیار کرتے تو ہمیشہ اس کی پابندی فرماتے ۔(ابوداؤد)
ایک دوسری حدیث میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اللہ کے نزدیک بہترین عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ وہ تھوڑا ہی ہو‘‘۔
مذکورہ دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ آدمی اپنی قوت و استطاعت کے لحاظ سے مکلف ہے۔ اگر کوئی وقتی جوش و خروش میں کوئی عمل شروع کرے پھر اس پر قائم نہ رہے تو یہ اللہ کے نزدیک محمود و مطلوب نہیں۔ عمل تھوڑا ہی ہو لیکن مستقل ہو ۔ عمل اتنا ہو جس پر مداومت ہو یہی اصل مقصود ہے اور اعتدال کا تقاضا بھی یہی ہے۔
گفتگو میں اعتدال:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ ’’رسول اللہ ﷺ تمہاری طرح ایسی تیزی کے ساتھ گفتگو نہیں کرتے تھے کہ الفاظ باہم نہایت ملے ہوئے اور متصل ہوں۔ آپﷺ گفتگو اس طرح فرماتے تھے کہ اگر کوئی گننے والا گننا چاہتا تو وہ آپ کے جملے گن سکتا تھا ‘‘۔(بخاری و مسلم)
ترمذی کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ ایسی گفتگو کرتے تھے کہ جملوں کے درمیان فصل ہوتا تھا (یعنی جملے الگ الگ ہوتے تھے) کہ جو شخص آپﷺ کے پاس بیٹھتا وہ اسے یاد رکھ سکتا ‘‘۔
گفتگو میں تھوڑی سی بد احتیاطی بڑا اثر دکھاتی ہے ۔ حضرت ابوہریرہؓ نبیؐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا ’’کبھی بندہ خدا کی رضا مندی کی کوئی بات کرتا ہے اور وہ اس (بات) کی شان و وقعت کو نہیں جانتا جبکہ اس کی وجہ سے خدا اس کے درجات کو بلند فرماتا ہے اور کبھی کوئی بندہ زبان پر ایسی بات لاتا ہے جو خدا کو ناراض کرنے والی ہوتی ہے اور وہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا جبکہ وہ اس کے سبب سے جہنم میں گر جاتا ہے ‘‘۔
نماز میں اعتدال
نماز میں بھی وقار اور سنجیدگی کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جب نماز کی اقامت کہی جائے تو تم اس کی طرف بھگڈر مچاتے ہوئے مت آؤ بلکہ تم طمانیت کے ساتھ آؤ، پھر جس قدر نماز تمہیں مل جائے ادا کرلو اور جو نہ پاؤ اسے پوری کرلو‘‘۔(بخاری و مسلم)
خطبہ جمعہ و نماز جمعہ میں اعتدال:
پیارے نبیﷺکی نماز جمعہ وخطبہ دونوں میں اعتدال ہوتا تھا۔ حضرت ابو عبداللہ جابر بن سمرۃؓ فرماتے ہیں کہ میں نبیﷺ کے ساتھ نماز میں شریک تھا ، آپﷺ کی نماز بھی اعتدال کے ساتھ تھی اور آپؐ کا خطبہ بھی اعتدال کے ساتھ تھا‘‘(مسلم)
اعتدال ہر طرح کے عبادات ، معاملات اور خانگی و معاشرتی ، انفرادی و اجتماعی اعمال میں مطلوب ہے۔ عہد
رسالت میں بھی صحابہ کرام میں چند مسائل پر اختلافات پیداہوئے لیکن پیارے نبیﷺ نے دونوں کو صحیح قرار دیا ۔مثلاً ظہر و عصر کی نماز میں جمع بین صلاتین تقدیم وتاخیر میں اختلاف کے بعد چند صحابہ نے تقدیم کی اور بعض نے تاخیر کی تو پیارے نبیﷺ نے دونوں کو صحیح قرار دیا۔ یہی اعتدال کا راستہ آج بھی مطلوب ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *