And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided…(3:103)

اللہ کن سے خوش ہوتا ہے ؟

Posted by:

|

On:

|

وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِىَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِىْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَاۤ اَبَدًا ذٰ لِكَ الْـفَوْزُ الْعَظِيْمُ (100)


Quran Ayah Data not found….for Surah:9, Ayah:100 and Translation:93

Quran Surah:9 Ayah:100

ترجمہ:’’وہ مہاجر و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی ، نیز وہ جو بعد میں راستبازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے ، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ، اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، یہی عظیم الشان کامیابی ہے‘‘۔
آپ کسی مسلمان سے سوال کریں کہ اس کی ساری تگ و دو اور عبادت و ریاضت کامقصد کیا ہے تو ایک ہی جواب ہوگا۔ جنت کا حصول۔ یقینا یہ بڑی کامیابی ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ اس کا تذکرہ ہے۔ خود اس آیت کے اندر بھی اسے ’’فوز عظیم ‘‘ بڑی کامیابی سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
جنت ہر طرح کی پریشانیوں سے پاک نعمتوں سے بھری ہمیشگی کا ٹھکانہ ہے۔ اس لئے اس کی چاہت ہر دل کی آرزو ہے۔ لیکن احادیث کے اندر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب حساب وکتاب سے فارغ ہوگا جہنمی اپنے ٹھکانے پر پہنچا دئیے جائیں گے اور جنتی جنت میں بھیج دئیے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ اہل جنت سے سوال کرے گا کیا میں تمہیں بہترین نعمت سے نہ نوازوں؟ جنتی جواب دیں گے۔ تو نے ہر طرح کی نعمت سے نواز دیا پھر بھلا مزید کون سی نعمت ہوسکتی ہے؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنا دیدار کرائے گا۔ اس کی لذت و حلاوت ایسی ہوگی کہ جنتی اسی میں محو ہو جائیں گے اور جنت کی تمام نعمتیں انہیں ہیچ معلوم ہونے لگیں گی۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا جا میں تم سے راضی ہوگیا اور پھر کبھی ناراض نہ ہوں گا۔ گویا جنت میں بھی جو سب سے عظیم نعمت حاصل ہوگی وہ دیدار الٰہی اور اللہ تعالیٰ کی رضا ہے۔ گویا کامیابی کی انتہا یاعظیم کامیابی اگر کوئی چیز قرار دی جاسکتی ہے تو وہ رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ اسی لئے ارباب دانش کہتے ہیں کہ ایک مومن کی زندگی کا اصل مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہی ہے۔ جنت تو رضائے الٰہی کے حصول کی علامت یا اس کا نتیجہ ہے ۔
یہاں پہنچ کر عملی سوال یہ ہے کہ عظیم تر کامیابی رضائے الٰہی کا حصول کیسے ممکن ہے ؟ یا اللہ تعالیٰ کیسے لوگوں کو اپنی رضاسے نوازے گا یا نوازتا ہے ؟ سورۂ توبہ کی اس آیت میں دراصل اسی سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے ساتھیوں صحابہ کرام ؓ کی کچھ خوبیاں گناتے ہوئے یہ خبر دی گئی ہے کہ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ۔’’ رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ‘‘۔ گویا انبیاء و رسل کے بعد انسانیت کے گل سرسبد یہی صحابہ کرامؓ تھے۔ آخرت کے بجائے دنیا ہی میں اللہ تعالیٰ نے ان سے اپنی رضا مندی کا اعلان فرما دیا اور ’’رضی اللہ عنہ‘‘ ان کے ناموں کا لاحقہ اور جز بن گیا۔ گویا صحابہ کرامؓ کی زندگیاں ایسی چلتی پھرتی تصویریں ہیں جو رضائے الٰہی کے لئے مطلوبہ خوبیوں کی آئینہ دار ہیں اور ان سے آگاہ ہوکر بآسانی رضائے الٰہی کے ماڈلوں تک رسائی ہوسکتی ہے ۔
اس آیت میں رضائے الٰہی کا حق دار بننے والوں کی جو سب سے نمایاں خوبی بیان کی گئی ہے وہ سبقت (السابقون الاولون) ہے۔
سبقت کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ وہ ایمان میں پہل کرنے والے ہوتے ہیں یعنی سب سے پہلے ایمان لاتے ہیں۔ سب سے پہلے ایمان لانے اور اسلام قبول کرنے کی فضیلت اس لئے ہے کہ وہ نتیجہ دیکھے بغیر حق کو قبول کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ صاحب بصیرت ہیں۔ نتیجہ دیکھنے کا انتظار نہیں کرتے بلکہ اپنی بصیرت کی آنکھوں سے بھانپ لیتے ہیں۔
اسی طرح پہل کرنے کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ کسی طرح کے تحفظات کا شکار نہیں ہوتے بلکہ بے خطر اور بے لوث لبیک کہنے والے ہیں۔ بس اللہ کا حکم ہے سر آنکھوں پر خواہ نتائج کچھ بھی ہوں۔ اس جذبے اور کیفیت کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں اور ہر طرح کے خطرات کو مول لیتے ہیں یا مول لینے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کا خواب سنایا تو انہوں نے جھٹ کہا ’’اِفْعَلْ بِمَا تُؤْمَرْ‘‘آپ کر گزرئیے جو کچھ آپ کو حکم دیا گیا ہے ۔ گویا بلا جھجھک بغیر کسی تحفظ کے خود تیار ہوگئے ۔ غالباً اسی وجہ سے انبیاء ؑمیں سے اسماعیل علیہ السلام واحد نبی ہیں جن کی صفت ’’وَ کَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِیًّا‘‘ (مریم:۵۵) وہ اپنے رب کے نزدیک پسندیدہ تھے‘‘۔ نقل ہوا ہے۔ اسی طرح نہتے اور بے سرو سامان ہونے کے باوجود عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ لینے کے لئے جن صحابہ کرام ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھی ان سے اپنی رضا مندی کا قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایاہے

لَـقَدْ رَضِىَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِىْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ عَلَيْهِمْ وَاَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا (18)


Quran Ayah Data not found….for Surah:48, Ayah:18 and Translation:93

Quran Surah:48 Ayah:18

چنانچہ اسی اعلان کی بنا پر اس بیعت کو ’’بیعت رضوان ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اور اس میں شریک صحابہ کرامؓ کی فضیلت دوسروں پر سوا ہے۔
یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ جو پہلے ایمان لاتے ہیں ان کی حیثیت ہراول دستہ کی ہوتی ہے۔ سب سے زیادہ قربانی انہیں کو دینی پڑتی ہے۔ سب سے زیادہ مشقتیں بھی وہی اٹھاتے ہیں ۔ ہجرت و نصرت کے مراحل سے انہیں کو گزرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا سب سے بڑے انعام کا استحقاق بھی انہیں کو ہے۔
سبقت کا ایک دوسرا مفہوم اور بھی ہے جو زمانی نہیں بلکہ ہر موقع کے لئے ہے۔ کبھی بھی جو کسی خیر کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے وہ سبقت کرنے والا شمار ہوگا چنانچہ غزوہ تبوک کے موقع سے فی سبیل اللہ خرچ کے لئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھارا تو عمر رضی اللہ عنہ آدھا مال لائے اور یہ خیال تھا کہ آج میں سب سے آگے نکل جاؤں گا۔ لیکن ابو بکرؓ اپنا پورا اثاثہ اٹھا لائے تو انہیں اندازہ ہوا کہ ابو بکرؓ مجھ سے آگے نکل گئے اور میں کبھی بھی انہیں مات نہیں دے سکتا۔ کار خیر میں آگے بڑھنے کا جو یہ جذبہ پایا جاتا ہے اور عملاً اس کے جو مظاہر سامنے آتے ہیں یہ بھی سبقت کی تعریف میں شامل ہے۔
خواہ پہلا مفہوم مراد لیں خواہ دوسرا مفہوم مراد لیں۔ ہر صورت میں ہم اپنے آپ کو تہی دامن ہی محسوس کرتے ہیںپھر کیسے ہم رضائے الٰہی کے مستحق قرار پاسکتے ہیں؟
کہیں یہ غلط فہمی نہ پیدا ہوکہ سارا استحقاق تو پہلوں کا ہے بعد والوں کے لئے محرومی مقدر ہے۔ اس لئے فرمایا گیا ’’وَ الَّذِیْنَ اتَّبعَوْھُمْ بِاِحْسَانٍ‘‘ اور وہ لوگ جو ان اگلوں کے نقش قدم پر چلیں احسان (خوب کاری)کے ساتھ ۔ یعنی بعد والوں کو بھی اللہ کی رضا مندی حاصل ہوسکتی ہے ۔ بشرطیکہ وہ احسان کا ثبوت دیں۔اردو زبان میں عموماً ہم احسان کا مفہوم حسن سلوک سمجھتے ہیں۔ لیکن یہاں اس مفہوم میں نہیں ہے۔ بلکہ عربی زبان میں لفظ ’’احسان‘‘ کسی کام کو عمدہ سے عمدہ طریقے سے انجام دینے کو کہتے ہیں۔ گویا اللہ کے جتنے احکامات ہیں جس طرح اگلوں نے ان کو بہتر سے بہتر شکل میں انجام دیا ہے۔ اسی طرح بعد والے بھی عمدہ سے عمدہ انداز میں انجام دیں تو وہ بھی اسی اجرکے مستحق بن سکتے ہیں۔ اس لئے محرومی کے احساس کا سوال نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے جس کو جب موقع عنایت کیا وہ اپنا کردار ادا کرے اور اچھے سے اچھے طریقے سے کردار نبھائے ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ رب کریم اسے اپنی خوشنودی سے ضرور نوازے گا۔
یہاں ایک عملی سوال اور بھی ابھرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو ا یا نہیں یہ ہم کیسے پتہ لگائیں عملاً تو اللہ تعالیٰ آخرت کے دن واضح فرمائے گا ۔ لیکن اس آیت میں اس کا جواب بھی موجود ہے۔ اور وہ ہے رضی اللہ عنہم کے بعد ’’ورضوا عنہ ‘‘ کی صراحت ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہے یا نہیں ۔ لیکن یہ تو ہمیں خوب معلوم ہے کہ ہم خود اللہ سے راضی ہیں یا نہیں؟ اللہ کے ہر فیصلے پر مطمئن ہیں یا نہیں۔ تکلیف اور آرام ہر حال میں اللہ کے احکام بجا لاتے ہیں یا نہیں؟ توکل علی اللہ کی جو کیفیت مطلوب ہے وہ ہم میں پائی جاتی ہے یا نہیں ؟ اگر ہم اللہ کے ہر فیصلے پر راضی ہیں تو ہم یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ بھی ہم سے راضی ہوگا ۔ لیکن اگر ہم اللہ کے ہر فیصلے پر راضی نہیں بلکہ شکوہ سنج ہو جاتے ہیں یا پرائے دروازے کھٹکھٹانے لگتے ہیں تو پھر ہم کیسے یہ توقع رکھ سکتے ہیں اللہ ہم سے راضی ہوگا۔
صحابہ کرامؓ کا تو طرّہ یہ تھا کہ جب جو حکم آیا فوراً عمل درآمد شروع۔ شراب کی حرمت کا حکم آیا اور لب سے لگے ہوئے جام پھینک دئیے گئے ۔ ہمیشہ اللہ کی رضا کی فکر دامن گیر رہتی ۔ بے شمار واقعات ایسے ہیں کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وضاحت طلب فرماتے کہ یہ اللہ کا حکم ہے تو بے چوں و چرا تسلیم۔ اس سلسلے میں ہمیں کچھ نہیں کہنا ہے لیکن اگر حکم نہیں ہے تو پھر ہماری یہ رائے ہے۔ چنانچہ غزوہ احزاب کے موقع سے صورت حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو غطفان سے تہائی غلہ خراج پر صلح کے لئے اوس و خزرج کے سرداروں کو مشورے کے لئے جمع کیا تو انہوں نے پہلے وضاحت طلب فرمائی کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ ہے یا مشورہ ہے۔ اگر فیصلہ ہے تو ہمیں کچھ نہیں کہنا لیکن اگر مشورہ ہے تو جب جاہلیت میں ہم نے ایک دانہ ان کو نہیں دیا تو حالت اسلام میں بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اب تو تلوار ہی ان کا فیصلہ کرے گی۔ یہاں بھی آپ غور کریں کہ انہیں کس قدر احکام الٰہی اور رضائے الٰہی کا پاس و لحاظ رہتا تھا ۔ کیا ہم اپنے آپ کو اس مقام پر پاتے ہیں پھر کیسے ہم ’’رضوا عنہ ‘‘ کے مصداق قرار پاسکتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *