And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided…(3:103)

بے چین اساتذہ ۵؍ستمبر یوم اساتذہ کی مناسبت سے

Posted by:

|

On:

|

مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَہٗ ثُمَّ کَتَمَہٗ اُلْجِمَ بِلِجَامٍ مِنَ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامۃِ‘‘(ترمذی، ابوداؤد)


ترجمہ:— ’’جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی جائے جس کو وہ جانتا ہے اور وہ اس کو چھپائے (یعنی نہ بتائے ) تو قیامت کے دن اس کو آگ کی لگام پہنائی جائے گی ‘‘۔

اس حدیث میں صاحب علم اور استاد کے لئے بڑی سخت وعید ہے ۔ خاص طور سے وہ لوگ جو جمود کا شکار ہوتے ہیں، اور اشاعت علم اور تعلیم و تدریس کی سرگرمیوں میں کسی طرح کا کوئی حصہ نہیں لیتے ۔
اگر ضمیر زندہ ہو اور حس بیدار ہو تو وہ اسے پڑھ کر مضطرب ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور انتہائی ناساز گار حالات میں بھی اپنے فریضے سے غافل نہیں ہوسکتا۔ حضرت سفیان ثوری ؒ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ وہ عسقلان تشریف لے گئے ۔ تین دن وہاں ٹھہرے ، کوئی شخص ان سے کوئی مسئلہ دریافت کرنے نہ آیا تو یہ حال دیکھ کر وہ بے چین ہوگئے اور فرمایا ’’میرے لئے سواری کا انتظام کردو تاکہ میں یہاں سے جلد از جلد جاؤں یہ ایسا مقام ہے جہاں علم کی موت ہے ‘‘۔
آج کل حالات ناساز گار ہوں تو ایک طرح سے استاد کو بہانہ ہاتھ آجاتا ہے کہ کام سے چھٹی ملی ۔ حالانکہ جو واقعی مشفق استاد ہوتا ہے وہ ہر طرح کے حالات میں اپنا کام جاری رکھتا ہے۔ ہلاکو خان نے ۱۲۵۶م؁ میںبغداد کو تباہ و برباد کیا تو اہل بغداد کے سر سے ایک قیامت صغریٰ گزر گئی ۔ بعد میں ہلاکو خان جب اپنے مشیروں کے ساتھ اجڑے شہر کی سیر کو نکلا تو یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ مدرسہ مستنصریہ بغداد میں حسب سابق مسند تدریس بچھی ہوئی ہے ۔ استاد و شاگرد درس و تدریس میں مشغول ہیں۔
۱۸۵۷ئ؁ کی جنگ آزادی کے موقع پر مدرسہ رحیمیہ دہلی میں میاں نذیر حسین ؒ مسند تدریس پر فائز تھے۔ ان بگڑے حالات میں بسا اوقات یہ حالت ہوتی تھی کہ توپ کے گولے صحن مسجد میں آکر گرتے تھے مگر میاں جی طلبہ کے درمیان ’’اَلاَ اِنَّ اَوْلِیَائَ اﷲِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ‘‘ کے مصداق عزیمت و استقلال کا پہاڑ بنے اپنا کام جاری رکھتے تھے۔
ترکی کا جو موجودہ انقلاب ہے اس میں بہت بنیادی رول استاد بدیع الزماں سعید نورسی ؒ اور ان کے ’’طلاب نور‘‘ کا ہے ۔ مصطفی کمال پاشا نے ۱۹۲۴ئ؁ میں خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے اعلان کے ساتھ ساتھ تمام مدارس بند کردئیے تھے۔ عربی زبان کی تعلیم اور اذان پر بھی پابندی لگا دی تھی۔ چنانچہ استاد بدیع الزماں نورسیؒ نے زمین دوزتہہ خانوں میں مدرسے جاری کئے ۔ تہ خانے کے دونوں جانب دروازے ہوتے تھے۔ دروازوں کے پاس موچی یا درزی کو بٹھائے رکھتے تھے ۔ وہ اپنے کام میں مشغول رہتا ۔ جب پولیس یا جاسوس کو آتا دیکھتا تو اندر اطلاع کردیتا تھا چنانچہ اساتذہ و طلبہ مخالف دروازے سے منتشر ہو جاتے تھے اس طرح تیس سالوں تک جان کی بازی لگا کر تدریس کا سلسلہ باقی رکھا۔ ۱۹۵۳؁ء میں جب عدنان مندریس کامیاب ہوئے تب نئی حکومت نے پابندی ختم کی اور پھر انہوں نے آزاد فضا میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور نئی نسل کی ایسی کھیپ تیار کردی جو موجودہ انقلاب کی کمان سنبھالے ہوئے ہے۔ استاد اگر یکسو ہو تو ہر طرح کے ناگفتہ بہ حالات میں بھی معمار قوم کا رول انجام دے سکتا ہے اور بڑے انقلاب کی آبیاری کرسکتا ہے ۔
ہم میں سے کسی کو ذرا مرض لاحق ہو تو تعلیم و تعلم کا سلسلہ رک جاتا ہے حالانکہ جو علم کی شیدائی ہوتے ہیں وہ مرتے دم تک چین سے نہیں بیٹھتے۔ امام ابو یوسفؒ کے سلسلہ میں آتا ہے کہ جب وہ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو ابراہیم بن الجراحؒ عیادت کے لئے آئے ۔ امام ابو یوسف ؒ نے اس نازک وقت میں بھی ابراہیم ؒ سے دریافت کیا رمی جمار (حج میں کنکری مارنا) میں افضل صورت کیاہے۔ انہوں نے جو کچھ جواب بن پڑا جواب دیا تو امام ابو یوسف ؒ نے مسئلہ سمجھایا اور وضاحت فرمائی جو شخص قیام کرنا چاہے وہ پا پیادہ رمی جمار کرے لیکن جو شخص قیام نہ کرنا چاہئے وہ سواری پر رمی جمار کرسکتا ہے۔ ابراہیم ؒ تھوڑی دیر رکے پھر باہر نکل آئے جیسے چند قدم آگے بڑھایا کہ رونے کے آواز سنی اور معلوم کیا تو پتہ چلا کہ امام ابو یوسف ؒ اللہ کو پیارے ہو گئے ۔ اسی طرح مشہور سیاح ابو ریحان البیرونی کے سلسلے میں آتا ہے کہ وہ شدید بیمار پڑا۔ ایک عالم صاحب عیادت کو آئے تو اس نے موقع غنیمت جان کر وراثت کی تقسیم کا ایک مشکل مسئلہ ’’عول‘‘ دریافت کیا۔ عالم صاحب نے کہا اب آپ کا آخری وقت لگتا ہے آپ اللہ اللہ کریں ۔ یہ وقت اس مسئلہ کو سمجھنے کا نہیں ہے۔ البیرونی نے کہا ’’کیا یہ بات اچھی ہے کہ میں دنیا سے ایک مسئلہ کے بارے میں جاہل جاؤں ‘‘مجبوراً عالم صاحب نے وہ مسئلہ ان کو سمجھادیا اور رخصت ہوگئے ۔ تھوڑی دیر بعد ہی انہیں خبر ملی کہ البیرونی نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔
بیدار دل میں اشاعت علم کی آگ کیسے بھڑکتی ہے اور وہ خود کیسے تڑپتا ہے اس کا اندازہ لگانے کے لئے ابوہریرہؓ کی پوری زندگی اور ان کا یہ قول بڑا پیغام رکھتی ہے ۔ ایک موقع سے انہوں نے فرمایا ’’اگر میری گردن پر تلوار لٹک رہی ہو اور اس سے پہلے کہ وار کیا جائے اور میری گردن تن سے الگ کردی جائے اگر میں ایک بھی حدیث کسی کو سنا سکوں تو ضرور سنادوں گا‘‘۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *