وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰهُمْ اَنْفُسَهُمْ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ (19)
Quran Ayah Data not found….for Surah:59, Ayah:19 and Translation:93
Quran Surah:59 Ayah:19
ترجمہ:’’اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کا وجود بھلادیا۔ وہی لوگ فاسق ہیں‘‘۔
انسانی خاصیات میں سے ایک اہم خاصیت ’’نسیان‘ یعنی بھولنا ہے۔ یہ خاصیت نفع بخش ہے یا نقصان دہ ہمیشہ بحث کا موضوع رہاہے۔ بھولنے پر جب نقصان اٹھانا پڑتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ نقصان دہ ہے۔ لیکن بھولنے کے جب مثبت پہلو پر غور کرتے ہیں تو پھر محسوس ہوتا ہے کہ یہ نفع بخش ہے جسے اللہ تعالیٰ کا انعام ہی سمجھنا چاہئے ۔ ماں باپ کی موت یا آل و اولاد کی جدائی پر انسان کو جو غم لاحق ہوتا ہے اگر وہ اس کے ذہن سے محو نہ ہو تو کیا زندگی اجیرن نہیں بن جائے گی ۔ صرف اسی ایک نکتہ پر غور کرلیں تو محسوس ہوگا کہ یقینانسیان بھی اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔ دراصل یہ خاصیت دو دھاری تلوار کی طرح ہے۔
نسیان مختلف اسباب سے لاحق ہوتا ہے (۱)کبھی تو کثر ت معلومات اور معلومات کے باہمی اختلاط اور ٹکراؤ سے نسیان پیدا ہوتا ہے جیسا کہ نزول قرآن کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا حال ہوتا تھا چنانچہ آپﷺ وحی کو محفوظ رکھنے کے لئے تکرار و تعجیل فرماتے تو آپﷺ کو تسلی دی گئی
سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰٓى (6)
Quran Ayah Data not found….for Surah:87, Ayah:6 and Translation:93
Quran Surah:87 Ayah:6
عنقریب میں تمہیں پڑھا دوں گا پس تم نہ بھولو گے ۔
(۲) کبھی مختلف فوری عوارض کی وجہ سے ذھول ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ شب قدر کی تعیین کا اعلان کرنے کے لئے صحابہؓ کے درمیان تشریف لائے لیکن انہیں جھگڑتے دیکھا تو تعیین ذہن سے محو ہو گئی یا جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کیلئے گئے ۔ انہو ںنے ہدایت کہ کہ صبر سے کام لیں۔ میری حرکتوں پر سوالات نہ کریں انہوںنے وعدہ کرلیا لیکن جب جب ان کی طرف سے ناقابل فہم حرکتوں کا صدور ہوتا تو صبر نہ کرپاتے اپنا وعدہ بھول جاتے اور سوال کر بیٹھتے ۔ چنانچہ انہوں نے اخیر میں ان الفاظ میں معذرت کی ’’لاَ تُؤَاخِذْنِیْ بِمَا نَسِیْتُ‘‘جو کچھ میں بھول گیا اس پر میرا مؤاخذہ نہ کیجئے ۔
اس طرح اگر کوئی چیز بھول جائیں تو اس پر درگزر کرنا چاہئے کیونکہ اس میں انسان کے ارادے اور نیت کا دخل نہیں ہوتا چنانچہ اللہ تعالیٰ بھی ایسی بھول چوک کو معاف فرما دیتا ہے اور اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں کرتا جیسے روزے میں بھول کر کھالیں تو کوئی مؤاخذہ نہیں ہے۔
(۳) کبھی کبھی نسیان کا سبب فطری طور پر بھولنا نہیں ہوتا بلکہ کسی وجہ سے نظر انداز کرنا ہوتا ہے۔ وہ جانتے بوجھتے اعراض کرتا ہے لیکن نتیجہ بھولنے جیسا ہی نکلتا ہے اس لئے اسے بھی بھولنے سے تعبیر کرتے ہیں چنانچہ جب میاں بیوی کے تعلقات بگڑتے ہیں ، دوریاں پیدا ہوتی ہیں اور طلاق کی نوبت آتی ہے تو ایک دوسرے کے حقوق بھی پامال ہونے لگتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ حقوق کی یہ پامالی جانتے بوجھتے ہوتی ہے کسی نسیان کی وجہ سے نہیں ہوتی ہے۔ اسی لئے فہمائش کرتے ہوئے قرآن مجید میں اسے ’
وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيْضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اِلَّاۤ اَنْ يَّعْفُوْنَ اَوْ يَعْفُوَا الَّذِىْ بِيَدِه عُقْدَةُ النِّكَاحِ وَاَنْ تَعْفُوْٓا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى وَ لَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ (237)
Quran Ayah Data not found….for Surah:2, Ayah:237 and Translation:93
Quran Surah:2 Ayah:237
اور تم باہم احسان کو نہ بھول جاؤ۔ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ جو یقینا فطری طور پر بھولنے کے مفہوم میں نہیں ہے بلکہ جان بوجھ کر نظر انداز کرنے کے مفہوم میں ہے۔ اس طرح سے جان بوجھ کر نظر انداز کرنا چونکہ شعوری ہوتا ہے۔ اسی لئے یہ جرم ہے اور ایسا کرنے والوں کو فاسق قرار دیا گیا ہے۔یہی مفہوم اس وقت مراد ہوتا ہے جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف کی جاتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو نعوذ باﷲ نسیان تو لاحق نہیں ہوتا لیکن جب کوئی جان بوجھ کر اللہ کو بھلا دیتا ہے تو اللہ کبیدہ خاطر ہوتا ہے ناراض ہوتا ہے اور پھر بھلانے والے سے اعراض کرنے لگتاہے چنانچہ زیر درس آیت میں جہاں اللہ کی طرف سے بھلانے کی بات کہی گئی ہے وہ اسی مفہوم میں ہے کہ اللہ اس سے اعراض کرتا ہے ۔
اس آیت میں اصلاً اہل کتاب کا رویہ بیان کرکے اس طرح کی حرکت سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اہل کتاب کا رویہ یہ تھا کہ وہ اللہ کی معرفت رکھتے تھے پھر بھی حقوق اللہ سے اعراض کرتے تھے۔ یہ چونکہ شعوری اعراض تھا اس لئے انتہائی گھناؤنا جرم تھا جو کسی قیمت پر معاف نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ وہ اس رویے سے باز نہ آئے تو اللہ نے ان سے نوازشیں چھین لیں اور انہیں محروم کردیا ۔چنانچہ اہل ایمان کو بھی نصیحت کی جارہی ہے کہ وہ ایسے رویے سے بچیں ورنہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی بھلا دے گا۔ ان سے بھی اعراض برتے گا اور اپنے انعامات سے محروم کردے گا۔
آج ہم مسلمانو ںکا حال بھی کچھ ایسا ہی ہوگیا ہے ۔ ہم اللہ کو کو مانتے ہیں ، جانتے ہیں لیکن اس کے حقوق کی ادائیگی سے جانتے بوجھتے اعراض کرتے ہیں جسے وہ کسی قیمت پرمعاف نہیں کرتا ہے ۔ چنانچہ آج ہم بھی اللہ کی نظر عنایت سے محروم ہیں جب تک ہم اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لاتے اللہ تعالیٰ کی نوازشوں کی بارش نہیں ہوسکتی۔
اصل سوال یہ ہے کہ رویوں میں تبدیلی کیسے آسکتی ہے اور نسیان کے ضرر سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے خود اس کی رہنمائی کرکے ہماری مشکل آسان کردی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اِلَّاۤ اَنْ يَّشَآءَ اللّٰهُ وَاذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيْتَ وَقُلْ عَسٰٓى اَنْ يَّهْدِيَنِ رَبِّىْ لِاَقْرَبَ مِنْ هٰذَا رَشَدًا (24)
Quran Ayah Data not found….for Surah:18, Ayah:24 and Translation:93
Quran Surah:18 Ayah:24
جب تمہیں نسیان لاحق ہو تو اپنے رب کو یاد کرو ‘‘ یعنی ذکر الٰہی نسیان کا علاج ہے ۔ ایک دو بار یاد کرنا نہیں بلکہ بہ تکرار یا د کرنا ۔ جتنا زیادہ ذکر الٰہی کا اہتمام ہوگا اتنا ہی ہم نسیان سے محفوظ رہیں گے او رکامیابی ہمارے قدم چومے گی۔’’اور اللہ کو زیادہ سے زیادہ یاد کرو شاید کہ تم فلاح پاؤ‘‘
فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِى الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (10)
Quran Ayah Data not found….for Surah:62, Ayah:10 and Translation:93
Quran Surah:62 Ayah:10
اپنی یاد ہی کے لئے اللہ تعالیٰ نے نماز کا حکم دیا ہے ۔ فرمایا’’میری یاد کے لئے نماز قائم کرو‘‘(طٰہٰ:۱۴) یہ نماز بھی ایک بار نہیں بلکہ پانچ بار ادا کرنی لازم ہے۔اس زیادتی اور تکرار سے صاف واضح ہے کہ ذکر الٰہی بار بار مطلوب ہے لیکن ہمارا یہ حال ہے کہ ہم میں سے بیشتر نماز سے غافل ہیں۔ کچھ پڑھتے ہیںتو ۳۶۰دنوں میں ایک بار یعنی سالانہ (عیدین کی ) یا پھر کھاٹ کی یعنی زندگی میں ایک بار (جنازے کی)۔ بہت کم ہیں جو روزانہ پنج وقتہ پڑھتے ہیں ۔ پھر بھلا کیسے اس مرض کا مداویٰ ہوسکتا ہے؟