عَنْ اَبِیْ ھریرۃؓ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ ﷺ مَنْ حَجَّ فَلمْ یَرْفَثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمٍ وَّلَدَتْہٗ اُمُّہٗ (رواہ البخاری و مسلم)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جس آدمی نے حج کیا اور اس میں نہ تو کسی شہوانی اور فحش بات کا ارتکاب کیا، اور نہ اللہ کی کوئی نافرمانی کی تو وہ گناہوں سے ایسا پاک و صاف ہوکر واپس ہوگا جیسا اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا ‘‘
تشریح: قرآن مجید کی سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۹۷
اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِى الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ يَّعْلَمْهُ اللّٰهُ وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى وَاتَّقُوْنِ يٰٓاُولِى الْاَلْبَابِ (197)
Quran Ayah Data not found….for Surah:2, Ayah:197 and Translation:93
Quran Surah:2 Ayah:197
میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے’’حج کرنے والے بالخصوص زمانہ حج میں شہوت کی باتوں، اللہ کی نافرمانی والے سارے کاموں اور آپس کے جھگڑے بازی سے بچیں‘‘۔ حضرت ابوہریرہؓ کی اس حدیث میں اس ہدایت مذکورہ پر عمل کرنے والے حجاج کرام کو بشارت سنائی گئی ہے کہ جو شخص حج کرے اور ایام حج میں نہ تو شہوت کی باتیں کرے ، اور نہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی کوئی ایسی حرکت کرے جو فسق کی حد میں آتی ہو تو ایسے حج کی برکت سے اس کے سارے گناہ معاف کردئیے جائیں گے اور گناہوں سے بالکل پاک و صاف ہوکر واپس ہوگا جیسا کہ وہ اپنی پیدائش کے دن بے گناہ تھا۔
اصطلاح میں حج ایک معروف عبادت ہے جو اسلام کے ارکان خمسہ میں سے آخری رکن ہے۔ حج کی تعریف و حقیقت حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اپنی مایہ ناز کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں ان الفاظ میں بیان کی ہے ۔ ’’حج در حقیقت مخصوص وقت میں اور مخصوص جگہ میں نیک لوگوں کی بہت بڑی جماعت کے اکٹھا ہونے کا نام ہے اور وہ وقت ایسا ہونا چاہئے جس میں ان حضرات کی یاد تازہ ہو جن پر اللہ نے خصوصی فضل و کرم فرمایا ہے یعنی انبیاء کرام ، صدیقین ، شہداء اور صالحین کی زندگیاں یاد آئیں۔ اور وہ جگہ ایسی ہونی چاہئے کہ اس میں دین کی واضح نشانیاں ہوں، جہاں اکابر دین کی جماعتیں آتی رہی ہوں ، اور وہ دین کی یادگاروں کی تعظیم کرتے رہے ہوں، وہاں وہ اللہ کے سامنے گڑ گڑاتے رہے ہوں، اللہ سے خیر کی امید باندھ کر اور گناہوں کی معافی کی آرزو لے کر وہاں حاضر ہوتے رہے ہوں۔ جب ایسے زمانے میں اور ایسی جگہ میں نیک لوگ بڑی تعداد میں اکٹھا ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف مکمل توجہ کرتے ہیں تو ضرور رحمت خداوندی اور مغفرت الٰہی نازل ہوتی ہے ۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ’’شیطان عرفہ کے دن جس قدر ذلیل ، دھتکارا ہوا ، حقیر اور غضبناک نظر آتا ہے اتنا کسی دن میں نظر نہیں آتا اور اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ رحمت الٰہی کا نزول اور اللہ تعالیٰ کا بڑے بڑے گناہوں سے درگذر کرنا دیکھتا ہے ‘‘۔
’’رفث‘‘ مصدر ہے جس کے معنی ہیں گندی گفتگو اور جماع،فَسْق ، فِسْق اور فُسوق کے لفظی معنی ہیں حق و صلاح کے راستے سے ہٹ جانا، بدکار ہونا، مذکورہ دونوں الفاظ حدیث سے اس بات کی صراحت ہوتی ہے کہ ’’مغفرت کی حد تک حج کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ آپ بے عیب حج کریں ‘‘ بے عیب سے مراد یہ ہے کہ آدمی حج کے دوران ہر قسم کی برائیوں سے بچنے کی پوری کوشش کرے ۔ حج میں انسان کو جو سب سے بڑی مشقت پیش آتی ہے وہ یہ ہے کہ اُسے مناسک حج کی ادائیگی میں قدم قدم پر رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ کیونکہ ایک ہی وقت میں لاکھوں لوگوں کو یہ مناسک ادا کرنے ہوتے ہیں۔ ایسے عالم میں ہر وقت اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ دانستہ یا نادانستہ دوسرے کو کوئی ایذا پہنچ جائے ۔ اس لئے تمام مواقع پر حاجی کو ضبط و تحمل سے کام لینا چاہئے ، باہم گالم گلوچ اور دنگے فساد سے کلی اجتناب کرنا چاہئے اور اگر کسی کی ذات سے اس کو کوئی تکلیف پہنچ جائے تو اس کو صبر کے ساتھ برداشت کرے ۔(تفہیم الاحادیث)
یوں تو حج کے بے شمار روحانی، اخلاقی ، اجتماعی ، تمدنی اور مادی فوائد ہیں مگر یہ سب ضمنی اور ثانوی حیثیت کے حامل ہیں۔ حج کا سب سے اہم دینی فائدہ یہ ہے کہ وہ حاجی کے لئے ’’سامان تطہیر‘‘ ہے یعنی آدمی کو حج نہ صرف گناہوں سے پاک کرتا ہے بلکہ اس کے باطن کو بھی پاکیزہ بنادیتا ہے اور پھر آدمی گناہوں کی آلودگیوں سے اس قدر صاف ستھرا ہو جاتا ہے کہ گویا وہ کوئی معصوم عن الخطا نو مولود ہو۔