اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهٗ وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَـعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَآءَ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ (140) وَلِيُمَحِّصَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَمْحَقَ الْكٰفِرِيْنَ (141)
Quran Ayah Data not found….for Surah:3, Ayah:140 and Translation:93
Quran Surah:3 Ayah:140-141
:’’اس وقت اگر تمہیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں تم پر یہ وقت اس لئے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں، اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے ) گواہ ہوں کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں،اور وہ اس آزمائش کے ذریعہ سے مومنوں کو الگ چھانٹ کر کافروں کی سرکوبی کردینا چاہتا تھا‘‘۔
یہ آیات غزوہ احد کے بعد نازل ہوئیں ، چنانچہ ان میں غزوہ احد کے انجام پر بحث کی گئی ہے۔ اس غزوہ پر تبصرہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں بظاہر شکست کے بعد فتح حاصل ہوئی تھی اور اہل ایمان عجیب و غریب کیفیت میں مبتلا تھے۔ بظاہر شکست کا سامنا کرنے کی وجہ سے انتہائی ملول تھے بلکہ مایوسی کا شکار تھے۔ ایسے عالم میں کئی حقیقتیں سمجھائی گئی ہیں۔
سب سے پہلی حقیقت تو یہ سمجھائی گئی کہ ،مایوس ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ۔ نہ ہمت ہارنے اور دل شکستہ ہونے کی ضرورت ہے۔ مومن کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ مومن کے لئے تو مایوسی کفر ہے۔ دلیل یہ دی گئی کہ ’’اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ‘‘اگر غزوہ احد میں تمہیں کوئی مصیبت لاحق ہوئی ہے تو اس سے پہلے تمہارے دشمنوں کو غزوہ بدر میں مصیبت لاحق ہوچکی ہے وہ غزوہ بدر کی مصیبت جھیلنے کے باوجود نئی تیاری کے ساتھ مقابلہ کے لئے دوبارہ آگئے اور ہمت نہیں ہاری تو تم کیوں پست ہمت ہوئے جاتے ہو۔ تمہیں تو اور زیادہ بلند ہمتی اور جرأت کا مظاہرہ کرناچاہئے اور آئندہ کے مقابلہ کی تیاری میں جٹ جانا چاہئے ۔ یہ گویا ایک طرح کی ہمت افزائی اور تسلی تھی۔
دوسری حقیقت یہ سمجھائی گئی کہ ہمیشہ حالات یکساں نہیںرہتے ’’وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ‘‘’’ان دنوں کو ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘۔ کوئی آج امیر ہے تو کل غریب ہو جاتا ہے۔ کوئی آج غریب ہے تو کل امیر بن جاتا ہے۔ کوئی آج غالب ہے تو کل مغلوب ہو جاتاہے ۔ کوئی آج مغلوب ہے تو کل غالب آجاتا ہے ۔ کوئی آج فتح حاصل کرتا ہے تو کل شکست سے دو چار ہو جاتاہے۔ کوئی آج شکست کھاتا ہے تو کل فتح پاتاہے۔ اس حقیقت کو داغ دہلوی نے بڑے خوبصورت انداز میں بیان فرمایا ہے ؎
فلک دیتاہے جن کو عیش ان کو غم بھی دیتا ہے
جہاں بجتے ہیں نقارے وہاں ماتم بھی ہوتا ہے
گویا یہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ مختلف اسباب سے لوگوں کے احوال بدلتا رہتا ہے۔ اس لئے بھی اہل ایمان کو اس طرح کی صورت حال سے دوچار ہونے کے باوجود دل شکستہ ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اسباب پر غور کرکے اپنی اصلاح کی طرف متوجہ رہنے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ دنوں کو لوگوں کے درمیان کیسے گردش دیتا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے ذر ان واقعات پر غور کریں۔ ایک وقت تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائیوں نے سازش کرکے ان کو ختم کرنے کی کوشش کی اور اپنے خیال میں انہوں نے ایسا کیا بھی لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام اقتدار تک پہنچے اور بھائیوں کو ان کی خدمت میں کرم کی بھیک مانگنے کے لئے حاضر ہونا پڑا ۔ اسی طرح غور کریں ایک وقت تھا کہ اہل مکہ نے آپﷺ کے ساتھیوں کو مکہ سے نکالا اور آپﷺ کو قتل کرناچاہا۔ لیکن چند ہی سال بعد اللہ نے وہ دن دکھائے کہ آپﷺ اور آپﷺ کے ساتھی فاتحانہ مکہ میں داخل ہوئے اور جنہوں نے نکالا اور قتل کی سازش کی تھی وہ کرم کے امیدوار بنے کھڑے تھے۔ ایک وقت تھا کہ ڈاکٹر امبیڈکر کے برہمن ساتھی کلاس روم میں جہاں بیٹھتے تھے وہاں انہیں نہیں بیٹھنے دیتے تھے۔ بلکہ پچھلی بینچ پر بیٹھنے پر مجبور کرتے تھے۔ چھوا چھوت کے تصور کی وجہ سے جس گلاس سے پانی پیتے تھے اس سے امبیڈکر کو پانی نہیں پینے دیتے تھے لیکن چشم فلک نے وہ دن بھی دکھائے کہ وہ ملک کے دستور ساز کمیٹی کے صدر بنے اور سارے اونچی ذات والے ان کے ماتحت تھے اور اب تو انہیں ’’مہان پرش‘‘ کہتے نہیں تھکتے۔
یہاں یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ اللہ کی قدرت لامحدود اور اس کی لاٹھی بے آواز ہے ۔ کبھی بھی کسی بھی طریقے سے وہ اپنے کرشمے دکھادیتاہے۔ فرعون اپنے آپ کو ’’اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلَیٰ‘‘ کہتا تھا لیکن محض ایک طوفانی لہر نے ہمیشہ کے لئے سامان عبرت بناکر پھینک دیا ۔ بڑے بڑے سردارانِ قریش اسود بن ابی زمعہ ، اسود بن عبدیعقوب، ولید بن مغیرہ، عاص بن ابی وائل اور حارث بن قیس بن طلاطلہ آپ ﷺکا مذاق اڑانے میں پیش پیش رہتے تھے ۔ آپﷺ ان سے بڑی تکلیف اٹھاتے اور تنگی محسوس کرتے تھے بالآخر اللہ تعالیٰ نے ضمانت لے لی ۔ ’’اِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ‘‘(الحجر:۹۷)’’ان مذاق اڑانے والوں کے لئے آپ کی خاطر ہم کافی ہیں‘‘،اور تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہ سب کے سب رسوائی کی موت مرے۔ چنانچہ دلائل النبوۃ للبیہقی جلد ۲ صفحہ ۲۱۶ تا ۳۱۸) میں منقول ہے کہ یہ سب کے سب دنیا میں خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہوکر فوت ہوئے ۔ ولید بن مغیرہ کے پاؤں میں بھالا لگا۔ اس کی رگ کٹ گئی وہ اسی سے مر گیا ۔ حارث کے پیٹ میں پانی بھر گیا حتی کہ منھ سے گندگی نکلنے لگی وہ اسی حالت میں مرا ۔ عاص کے پاؤں میں کانٹا نما کوئی چیز چبھی ، زخم پھیل گیا، وہ اسی سے مر گیا۔ اسود بن ابی زمعہ ایک درخت کے نیچے لیٹا ہوا تھا اچانک چیخنے لگا بیٹا! مجھے بچاؤ ، میری آنکھ میں کانٹا چبھ گیا ہے۔ سخت تکلیف دے رہا ہے اس نے کہا ہمیں تو کچھ نظر نہیں آیا ۔ وہ اسی تکلیف سے اندھا ہوگیا اسی طرح اسود بن عبدیعقوب کے سر میں پھوڑا نکلا اور وہ اسی زخم کی اذیت سے جہنم کی غذا بن گیا۔
تیسری حقیقت یہ سمجھائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے درمیان دنوں کو جو گردش دیتا ہے اور ان کے احوال ادلتا بدلتا رہتا ہے اس کے اندر بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ سب سے پہلی حکمت تویہ ہے کہ ’’وَ لِیَعْلَمَ اﷲُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا‘‘ایسا کرنے سے سچے پکے اہل ایمان اور نام نہاد اہل ایمان کی شناخت ہو جاتی ہے۔ان کے درمیان تمیز کیا جاسکتا ہے اور اس کی روشنی میں ان کے سلسلے میں رویّے متعین کئے جاسکتے ہیں۔
دوسری حکمت یہ ہے کہ ’’وَ یَتَّخِذَمِنْکُمْ شُھَدَآئَ‘‘ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں کے درجات بلند کرتا ہے اور انہیں شہادت کے مرتبے پر فائز کرتا ہے، اور شہیدوں کے لئے جو انعام و اکرام ہے اس کے حصول کے مواقع پیدا فرماتا ہے ۔ کون ہے جو اس اعزاز کو نہیں چاہتا ۔ اس اعزاز کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے بس اتنا جان لینا کافی ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ ، حضرت خالد بن ولیدؓ اور سلطان صلاح الدین ایوبیؒ جیسے مشاہیر دلوں میں شہادت کی تمنا پالے ہوئے تھے لیکن شہادت کی حسرت لئے ہوئے ہی دنیا سے رخصت ہوئے ؎
کہ ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں
تیسری حکمت یہ ہے کہ ’’وَ لِیُمَحِّصَ اﷲُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا ‘‘ اہل ایمان میں جو تھوڑی بہت کمزوریاں پائی جاتی ہیں وہ اس طرح کی صورت حال پیدا کرکے ان کمزوریوں کو دور کرنا چاہتا ہے۔ انہیں پاک و صاف کرکے کندن بنانا چاہتاہے۔ غزوہ احد کے موقع سے اطاعت امر کے سلسلے میں کمزوری کا مظاہرہ ہوا تھا جس کی وجہ سے پانسا پلٹ گیا تھا۔ اللہ چاہتا ہے کہ اس طرح کی صورت حال پیدا کرکے اس قسم کی کمزوریاں دور کردی جائیں۔ اس لئے اس طرح کی صورت حال پیدا فرماتاہے۔
چوتھی حکمت یہ ہے کہ ’’ وَ یَمْحَقَ الْکَافِرِیْنَ‘‘ وہ کافروں کو مٹانا چاہتاہے۔یعنی اس طرح کی صورت حال پیدا کرکے وہ کافروں کو مٹانے کا سامان کرتاہے۔ کیونکہ کفر اللہ تعالیٰ کو کسی قیمت پر پسند نہیں۔ کفر کا مطلب ہوتا ہے اللہ کا انکار ، اس کی کبریائی کا انکار اللہ کی کبریائی کے بالمقابل اپنی کبریائی کا اعلان یاکسی اور کو اس کی کبریائی میں شریک ٹھہرانا۔ظاہر ہے یہ چیز یعنی کبر اللہ تعالیٰ کو بالکل پسند نہیں ۔ اس لئے جب بھی کوئی قوم کبر میں مبتلا ہوتی ہے اللہ اسے صفحہ ہستی سے مٹادیتا ہے۔ پچھلی قوموں کے احوال پڑھیں اس میں آپ کو صاف نظر آئے گا کہ عموماً قومیں ’’استکبار فی الارض‘‘ کی وجہ سے ہلاک کی گئیں۔ قوم نوح علیہ السلام کے سلسلے میں آیا ہے ’’وَ اسْتَکْبَرُوْا اسْتِکْبَاراً‘‘ (نوح:۷) ’’اور انہوں نے بڑے تکبر کا مظاہرہ کیا‘‘۔ قوم عاد کے سلسلے میں قرآن کا بیان ہے
’’فَأَمَّا عَادٌ فَا سْتَکْبَرُوْا فِیْ الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ‘‘ ( حٰمٓ السجدۃ:۱۵)
’’پس قوم عاد نے زمین میں کبر کا ناحق مظاہرہ کیا‘‘ فرعون اور اس کی قوم کے سلسلے میں بڑی صراحت کے ساتھ بیان ہے
ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى وَاَخَاهُ هٰرُوْنَ بِاٰيٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ (45) اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ئِه فَاسْتَكْبَرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا عٰلِيْنَ (46) فَقَالُـوْۤا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَـنَا عٰبِدُوْنَ (47) فَكَذَّبُوْهُمَا فَكَانُوْا مِنَ الْمُهْلَـكِيْنَ (48)
Quran Ayah Data not found….for Surah:23, Ayah:45 and Translation:93
Quran Surah:23 Ayah:45-48
ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون کو اپنی آیات اور کھلی دلیل دے کر فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس بھیجا ۔لیکن انہوں نے سرکشی کی اور وہ تھے ہی متکبر لوگ۔ کہنے لگے کہ کیا ہم اپنے جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں حالانکہ ان کی قوم ہماری غلام ہے انہوں نے موسیٰ اور ہارون کی تکذیب کی اور ہلاک ہونے والوں میں شامل ہوگئے ‘‘۔
ان حقائق اور حکمتوں کو سمجھ لینے کے بعد ہر صاحب ایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ سخت سے سخت حالات میں بھی دل شکستہ نہ ہو اور اللہ سے امید قائم رکھے ۔ آج کے ناگفتہ بہ اور سنگین حالات میں جو لوگ مایوسی کی باتیں کرتے ہیں ان کے لئے بھی ان آیات میں بڑی عبرت کا سامان ہے بالخصوص عالمی اور ملکی تناظر میں اہل ایمان کی جو صورت حال ہے اس سے اچھے اچھے لوگ مایوس نظر آتے ہیں۔ انہیں ان آیات کے پیغام پرغور کرنا چاہئے ۔ کیا انہوں نے قرآن میں
نہیں پڑھا ’’اَلَیْسَ الصُبْحُ بِقَرِیْبٍ‘‘ ’’کیا گھٹا ٹوپ اندھیرے کے بعد صبح قریب نہیں ہوتی‘‘۔