وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَآئِكُمْ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِه وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ (32)
Quran Ayah Data not found….for Surah:24, Ayah:32 and Translation:93
Quran Surah:24 Ayah:32
ترجمہ:تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ، ان کے نکاح کردو، اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے اُن کو غنی کردے گا۔ اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے۔
آئے دن عصمت دری کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ دن بہ دن اس کی شرح بڑھتی ہی جارہی ہے ۔حالانکہ جب جب کوئی سنگین واقعہ ہوتا ہے تو کافی ہنگامہ ہوتاہے اور ہزار تدبیریں اختیار کرنے کی تجاویز آتی ہیں بلکہ اس سلسلے میں اسپیشل قانون بھی پاس ہوا لیکن اس میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے بلکہ …
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
وجہ یہ ہے کہ صحیح انداز میں اور صحیح سمت میں اس کا علاج ڈھونڈھا ہی نہیں جارہا ہے صرف مختلف طرح کے قانون پاس کرنے اور سزا دینے کو اس کا حل سمجھا جارہا ہے حالانکہ کسی بھی مرض یا برائی کو روکنے کا صحیح طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے منبع اور سوتے پر روک لگائی جائے اورایسی تدبیر یں اختیار کی جائیں کہ وہ مرض اور برائی پیدا ہی نہ ہو۔ اسی لئے فرمایا گیا ’’اَلْوِقَایَۃُ خَیْرٌ مِنَ الْعِلاَجِ‘‘ احتیاط علاج سے بہتر ہے ۔
اس آیت میں عصمت دری کے سد باب کے لئے کئی احتیاطی تدابیر بتائی گئی ہیں۔ آج کے ماحول میں ضرورت ہے کہ وہ باتیں لوگوں کو سمجھائی جائیں تاکہ معاشرے سے اس برائی کا سد باب ہو۔
سب سے پہلی بات تو یہ سمجھا ئی گئی ہے کہ معاشرہ میں کوئی غیر شادی شدہ (مجرد) نہ رہے۔ اس لئے فرمایا ’’وَاَنْکِحُوْا الْاَیَامَیٰ مِنْکُمْ‘‘ تم میں جو غیر شادی شدہ ہوں ان کا نکاح کرادو ۔ یہ حکم اس لئے دیا گیا کہ غیر شادی شدہ رہیں گے اور خواہشات کی تکمیل کے لئے جائز مواقع نہیں ہوں گے تو ناجائز راہیں تلاش کریں گے اور عصمت دری پھیلے گی۔ اس لئے جائز مواقع فراہم کرناچاہئے ۔ حضرت عثمان بن مظعونؓ نے خصی ہونا چاہا تو آپﷺ نے منع فرمایا بعض صحابی نے نکاح سے راہ فرار اختیار کرنا چاہا تو آپﷺ نے ترغیب دی اور فرمایا نکاح میری سنت ہے ’’اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ‘‘ بلکہ یہاں تک فرمایا ’’فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ‘‘ جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ میں سے نہیں۔ یعنی میرے طریقہ پر نہیں۔ چنانچہ جو لوگ بھی شادی کے لائق ہوں خواہ مرد یاعورت، خواہ بیوہ یا مطلقہ، خواہ آزاد یا لونڈی ہر ایک کی شادی کردینی چاہئے ۔
یہ مسئلہ اس وقت اور گمبھیر ہوجاتاہے جبکہ شادی میں تاخیر کی جاتی ہے۔ جب لڑکے یا لڑکیاں بالغ ہو جائیں تو جلد ان کی شادی کردینی چاہئے تاکہ وہ بدکاری میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہیں۔ پیارے نبیؐ کی ہدایت ہے کہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ جب اس کا وقت ہو جائے تو اس میں تاخیر نہ کی جائے بلکہ اول وقت میں انجام دیا جائے۔ (۱) جب نماز کا وقت ہو جائے تو اس کی ادائیگی (۲) جب جنازہ حاضر ہو تو اس کی تدفین (۳) جب بچے بالغ ہو جائیں تو ان کا نکاح ۔
اسی طرح ایک دوسرے موقع پر آپﷺ نے فرمایا کہ اگر بچے بالغ ہو جائیں اور ان کا نکاح نہ کیاجائے پھر وہ کسی فتنے میں مبتلا ہو ں تو اس کا گناہ ان کے والدین کے سروں پر بھی ہوگا ۔
دوسری خاص بات جو سمجھائی گئی ہے وہ یہ کہ یہ نہیں فرمایا گیاکہ جو غیر شادی شدہ ہیں و ہ نکاح کریں، بلکہ فرمایا گیا کہ تم اپنے میں سے غیر شادی شدہ کا نکاح کرادو یعنی نکاح کرنا غیر شادی شدہ کی ذمہ داری تو ہے ہی لیکن اصلاً یہاں ان کے سرپرست والدین، گارجین اور متعلقین کو مخاطب کرکے حکم کے انداز میں کہا جارہاہے ’’تم نکاح کرادو‘‘۔ گویا اس سلسلے میں سوچنا ، دوڑ بھاگ کرنا، راہیں ڈھونڈھنا ہر ذمہ دار اور متعلق فرد کا فریضہ ہے ۔ انہیں اپنا یہ فرض ادا کرنا چاہئے ۔ اگر والدین اور سرپرست وولی حضرات کوتاہی کریں تو گویا ایک طرح سے وہ جوابدہ ہیں۔
عموماً تاخیر معاشی تنگی یااستحکام کے نام پر کی جاتی ہے۔ لیکن فرمایا گیا کہ اسے بھی اس راہ کا روڑانہیں بننا چاہئے ۔ ’’اِنْ تَکُوْنُوْا فُقَرَائَ یُغْنِھِمُ اﷲُ مِنْ فَضْلِہٖ‘‘اگر وہ حاجت مند ہوں گے تو اللہ اپنے فضل سے بے نیاز کردے گا، یعنی اگر معاشی تنگی ہو پھر بھی نکاح کی طرف قدم بڑھاناچاہئے اللہ آسانیاں پیدا کرے گا۔ عملاً ایسا ہی ہوتاہے کہ جب آدمی پر بوجھ پڑتا ہے تو وہ زیادہ محنت کرتا ہے اور راہیں کھل جاتی ہیں۔ نکاح کی صورت میں حلقہ تعارف اور تعاون بڑھ جاتاہے تو نئے مواقع جلد حاصل ہو جاتے ہیں اور یہ مسئلہ حل ہو جاتاہے۔ یہ بھی ممکن ہے منکوحہ بابرکت اور خوشحال ہو تو معاشی تگ ودو کے لئے راہیں آسان ہو جائیں۔ اس سلسلے میں حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہ ؓ کی شادی کا اسوہ بے نظیر ہے۔ ہمیں اس تیسری تدبیر کو بھی اچھی طرح سمجھنا اور سمجھانا چاہئے ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ ’’تین طرح کے آدمیوں کی مدد اللہ کے ذمہ ہے:’’ (۱) وہ شخص جو پاک دامن رہنے کے لئے نکاح کرے (۲) مکاتب (غلامی سے آزادی کے لئے مالک سے معاملہ کرنے والا) (۳)مجاہد‘‘ ۔(ترمذی)
معاشی تنگی کے ذیل میں شادی کے اخراجات کا مسئلہ بھی آج کل پریشان کن بنا ہوا ہے ۔ اس سلسلے میں ریا اور اسراف سے بچتے ہوئے ۔ سادگی کو اپنایا جائے تو سارا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ پیارے نبیﷺ کا دیا ہوا پیمانہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے ۔آپﷺ نے فرمایا ’’سب سے بہترین نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم خرچ ہو‘‘(احمد) اسی طرح آپﷺ نے فرمایا ’’اَکْثَرْھُنََّ بَرْکَۃً اَقَلُّھُنَّ صَدَاقاً‘‘(حاکم)’’عورتوں میں سب سے زیادہ بابرکت وہ ہے جس کی مہر سب سے کم ہو‘‘۔
تاخیر کا ایک سبب معیار کی تلاش بھی ہے۔ ہر اچھی خوبی کی تلاش میں لوگ کافی وقت لگا دیتے ہیں اور بسا اوقات لڑکے اور لڑکیاں فتنوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس مسئلہ کا حل بھی قرآن و حدیث میں بہت اچھے ڈھنگ سے بتایا گیاہے ۔ پہلی چیز تو یہ سمجھنا چاہئے کہ ہر خوبی ہرایک میں نہیں ہوتی اس لئے ترجیحات طے کرنی چاہئے ۔ اور ترجیحات مقصد کو سامنے رکھ کر طے کی جاتی ہیں۔ ایک مسلمان کے لئے دین سے زیادہ کوئی دوسری چیز اہم نہیں اس لئے پیارے نبیﷺنے ہدایت دی کہ دیکھنے کو تو مال، حسب ، نسب اور حسن ہر چیز دیکھی جاتی ہے لیکن تم دیندار کو ترجیح دو’’فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ‘‘ اس لئے کہ اسی صورت میں نکاح کا اصل مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔ اسی لئے مشرکہ کافرہ سے نکاح ممنوع ہے بلکہ قرآن میں یہاں تک ہے کہ اگر کوئی مشرکہ تمہیں بہت پسند آئے پھر بھی اس پر مومنہ لونڈی کو ترجیح دو کیونکہ مشرکہ جہنم کی طرف لے جانے کا سبب بن سکتی ہے۔ اور مومنہ لونڈی جنت کی طرف لے جائے گی اور اس کی گود میں اولاد پرورش پائے گی تو و ہ صالح اور نیک بنے گی۔ لہٰذا معیار کی تلاش میں سرگرداں رہنے والوں اور اس چکر میں تاخیر کرنے والوں کو یہ حقیقت سمجھنی اور سمجھانی چاہئے ۔ اس موقع پر پیارے نبیﷺ کا یہ ارشاد گرامی بھی سامنے رہنا چاہئے ’’جب تمہارے پاس ایسے شخص کا پیغام نکاح آئے جس کا دین اور اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے شادی کردو۔ اگر تم ایسا نہیں کروگے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد پھیل جائے گا‘‘(ترمذی، ابن ماجہ)
آج لوگ اس سے پہلو تہی برت رہے ہیں جس کانتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اللہ ہمیں اس
فتنے سے محفوظ رکھے اور نیک توفیق ارزانی کرے ۔وَبِاﷲِ التَّوْفِیْقُ