Quran#10|83-87|ur#
’’(پھر دیکھو کہ )موسیٰ علیہ السلام کو اس کی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سربرآوردہ لوگوں کے ڈر سے (جنہیں خوف تھا کہ ) فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا اور واقعہ یہ ہے کہ فرعون زمین میں غلبہ رکھتا تھا اور وہ اُن لوگوں میں سے تھا جو کسی حد پر رُکتے نہیں ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ’لوگو اگر تم واقعی اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر بھروسہ کرو اگر مسلمان ہو‘انہوں نے جواب دیا ’ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا، اے ہمارے رب ہمیں ظالم لوگوں کے لئے فتنہ نہ بنا اور اپنی رحمت سے ہم کو کافروں سے نجات دے ‘ اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام اور اس کے بھائی کو اشارہ کیا کہ ’مصر میں چند مکان اپنی قوم کے لئے مہیا کرو اور اپنے ان مکانوں کو قبلہ ٹھہرالو اور نماز قائم کرو اور اہل ایمان کو بشارت دے دو‘‘۔
تاریخ انسانی میں ظالموں اور جابروں کی فہرست تیار کی جاتی ہے تو ان میں نمایاں نام فرعون اور اس کے کار پردازوں کا آتا ہے ۔ ان کو راہ راست پر لانے کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام مبعوث کئے گئے تھے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کوششوں کے نتیجہ میں جو کشمکش پیدا ہوئی اور اس سے نکلنے کے لئے جو راہ نمائی کی گئی مندرجہ بالا آیات میں اس کاتذکرہ ہے ۔
سب سے پہلے تو یہ بتایا گیا کہ فرعون غلبہ رکھتا تھا اور اپنی بات منوانے کے لئے وہ کسی بھی حد سے گزر جاتا تھا۔ انسانیت اور اخلاق نام کی چیز کا اس کے پاس گزر نہیں تھا۔ چنانچہ ہر ایک اس سے خائف رہتا تھا اور خوف کی وجہ سے بہت سے لوگ فتنوں میں مبتلاہوگئے تھے۔ صرف چند نوجوان تھے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے اور خوف و ہراس کے باوجود آپ علیہ السلام کی پیروی کرتے رہے ۔ ایسے سنگین حالات میں نجات کیلئے انہیں جو راہ بتائی گئی اس کے بنیادی نکات حسب ذیل تھے:
۱۔ اگر اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ ہی پر بھروسہ کرو۔
۲۔ ظالموں اور کافروں کی طرف سے پیش آمدہ فتنہ وآزمائش سے نکلنے کے لئے اللہ سے دعا کرو۔
۳۔ اپنی قوم کی دینی و اخلاقی تربیت کے لئے مراکز قائم کرو اور ان مراکز کو بھی سنٹرلائز ہونا چاہئے اور ان سب کا بھی ایک متحدہ پلیٹ فارم ہوناچاہئے ۔ گویا وحد ت اسلامی اور اتحاد پیدا کرو اور انتشار کی کیفیت سے اپنے آپ کو باہر نکالو۔
۴۔ نماز قائم کرو کیونکہ یہی وحدت پیدا کرنے کا مؤثر ذریعہ ہے اور روحانی و تنظیمی تربیت کا آزمودہ نسخہ ہے ۔
۵۔ اہل ایمان کو بشارت دو ۔ یعنی حالات کی سنگینی کی وجہ سے ان میں جو مایوسی پیدا ہوئی ہے ان سے انہیں باہر نکالو، انہیں یہ سمجھاؤ کہ اللہ مسبب الاسباب ہے وہ کب اور کیسے حالات بدلتا ہے کوئی نہیں جانتا۔ بظاہر سنگین حالات میں بھی وہ کامیابی کی راہیں کھول سکتاہے۔
سوء اتفاق ہم بھی آج کل کچھ ایسی ہی صورت حال سے دو چار ہیں ۔ عجیب مخمصہ میں مبتلا ہیں اور طرح طرح کے اندیشوں اور خوف میں گھرے ہوئے ہیں۔ہمارے بھی سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ آئندہ کیا ہوگا اور موجودہ صورت حال سے ہم کیسے نکل سکتے ہیں؟ ایسے میں میں سمجھتا ہوں کہ مندرجہ بالا آیات میں دی گئی رہنمائیاں ہمارے درد کا بھی مداویٰ بن سکتی ہیں۔ بشرطیکہ ہم انہیں عملی جامہ پہنائیں۔
پہلی تدبیر تو کل علی اللہ ہے ۔ اب تک ہم اپنے مسائل کے لئے دیگر پارٹیوں کا سہارا ڈھونڈھتے رہے ہیں جو بے سود ثابت ہوئے۔ سیکولرزم کو آب حیات سمجھتے رہے جس کا نتیجہ سامنے ہے ۔ جمہوریت کو حل سمجھتے رہے جبکہ وہ دھوکہ ثابت ہورہاہے۔ ایسے میں جو سب سے مضبوط سہارا ثابت ہوسکتا تھا ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے ہم غافل رہے۔ اس کی دی گئی ہدایات سے ہم روگردانی کرتے رہے ۔ نتیجہ ظاہر ہے ۔ چنانچہ ضرورت ہے کہ ہم اپنے تمام معاملات میں صرف اور صرف اللہ پر بھروسہ کریں اور توکل علی اللہ کا واقعی ثبوت دیں۔
دوسری تدبیر دعاہے : دعا سے جب تقدیر بدل جاتی ہے تو ہم جس آزمائش میں مبتلا ہیں کیا اللہ تعالیٰ اسے نہیں بدل سکتا ہے ۔حوصلوں اور جذبوں کو کنٹرول کرنے اور بڑھانے کا مؤثر ہتھیار دعا سے بڑھ کر کوئی اور نہیں ہے۔ خوف اور اندیشوں سے نکالنے کا کارگر ذریعہ دعاکے علاوہ دنیا نے ایجاد نہیں کیا۔ انبیاء علیہم السلام بھی جب فتنوں میں گھر جاتے تھے تو ان کا آخری ہتھیار دعا ہی ہوتا تھا۔ کیا ہم اس کے محتاج نہیں ۔ کیا آہ و واویلابھی کوئی علاج ہے ؟
تیسری تدبیر یہ ہے کہ اصلاح و تربیت کیلئے مراکز قائم کئے جائیں اور انہیں وحدت کی لڑی میں پرودیا جائے ۔ ہمارے یہاں مراکز تو یقینا قائم ہیں لیکن ضرورت بھر نہیں ہیں۔ ہمہ جہتی تیاری کے لئے تعلیم، معاشیات ، سیاسیات ، میڈیا، تحقیق، فوج غرضیکہ جملہ ضروریات کے لحاظ سے جتنے مراکز ہونے چاہئیںاتنے مراکز نہیں ہیں۔ مزید یہ کہ جومراکز چل رہے ہیں ان میں بھی معلومات پر تو کسی قدر توجہ ہے لیکن تربیت اور معیار پر توجہ نہیں حالانکہ اصل نتائج معیار اور تربیت کے نتیجے میں ہی حاصل ہوں گے۔
اسی طرح تمام مراکز میں جو وحدت ہونی چاہئے اس کافقدان ہے۔ ہر ایک اپنی کاوش کو کافی و شافی سمجھتا ہے حالانکہ سب مل کر متحدہ طور پر کام کریں تو یہی کوششیں بہت ثمر آور ثابت ہوسکتی ہیں اور نظر انداز ہو جانے والے پہلوؤں پر بھی توجہ دی جاسکتی ہے۔اسی طرح ہمارے انتشار سے اغیار جو فائدہ اٹھاتے ہیں اور ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں اس کا بھی مداویٰ ہوسکتا ہے ۔ اے کاش ہماری قیادت ہوش کے ناخن لیتی!
اس ضمن میں ایک خاص بات جس پر دھیان دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ پرانی نسل سے زیادہ نئی نسل اس بات کی م
حتاج ہے کہ ان کی تربیت و ترقی اور تحفظ و ارتقاء پر توجہ دی جائے ۔ کیونکہ یہ اصل سرمایہ ہیں اور مستقبل انہیں کے ہاتھوں میں آنے والاہے۔ دشمنان اسی لئے اس قوت کوتوڑنا اور مٹانا چاہتے ہیں۔ ہمیں بڑھ کر انہیں سنبھالنا اور آگے بڑھانا چاہئے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان و استقامت کاثبوت دینے والے نوجوان ہی تھے جن کا تذکرہ مندرجہ بالا آیات میں اہتمام سے ’’ذُرِّیَّۃٌ‘‘ (نئی نسل) کہہ کر کیا گیاہے۔خود پیارے نبیﷺ پر ابتدائی طور پر ایمان لانے والے اور قربانیاں پیش کرنے والے عموماًنوجوان تھے ۔علیؓ، جعفرؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، سعدبن وقاصؓ بیس سال سے کم عمر میں ایمان لائے تھے ۔ عمرؓ، حمزہؓ اور عثمانؓ جب ایمان لائے تھے تو ان کی عمریں تیس سال سے کم تھیں، ابوبکر ؓ اور عمار بن یاسرؓ ہم عمر تھے صرف ایک نام عبیدہ بن حارث مطلبیؓ کا ملتا ہے جو آپﷺ سے عمر میں زیادہ تھے۔
چوتھی تدبیر اقامت صلوٰۃ ہے ۔ یہ جہاں اللہ سے تعلق جوڑنے اور ایمان کو پختہ بنانے کا ذریعہ ہے وہیں اتحاد پیداکرنے اور اجتماعی زندگی گزارنے کی بہترین تربیت ہے۔ امت کو اختلافات کے دلدل سے نکالنے اور ایک قیادت کے پیچھے چلنے کی اس سے بہتر کوئی ٹریننگ نہیں۔ اخلاق و آداب پیدا کرنے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کا اس سے آسان کوئی نسخہ نہیں۔ نفرتوں کو پاٹنے اور محبتوں کو پروان چڑھانے کا اس سے زیادہ مؤثر کوئی ہتھیار نہیں۔ اس لئے اسے دن میں پانچ بار لازم ٹھہرایا گیاہے۔ جو جتنا اس کی پابندی کرتا ہے وہ اتنا ہی کامیاب ہے اور جو اس میں کوتاہ ہے اس کے کامیابی کی کوئی گارنٹی نہیں۔ لہٰذا اس فطری نظام تعلیم و تربیت کے احیاء و استحکام پر ہمیشہ توجہ مرکوز رہنی چاہئے ۔
پانچویں تدبیرمایوسی سے نکالنا اور بشارت دینا ہے۔ ہر انسان کی ایمانی سطح یکساں نہیں ہوتی ہے۔ لہٰذا تھوڑی مصیبت بھی آئے تو وہ پریشان ہو جاتاہے۔ اسی طرح انسان جلد بازواقع ہوا ہے ۔ حالات امیدوں کے مطابق نظر نہ آئیں تو مایوس ہو جاتاہے۔ ایسے میں ضرورت ہوتی ہے کہ انہیں سنبھالا جائے اور اللہ کی تائید و نصرت اور قوت کا حوالہ دے کر ان کے اندر اطمینان پیدا کیا جائے۔ ’’لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اﷲَ مَعَنَا‘‘۔’’غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘ ۔ کہہ کر اللہ کے رسول ﷺ نے کیا پیغام دیا تھا؟’’اِنَّ مَعَ الْعُسْریُسْراً‘‘ ’’بے شک تنگی کے ساتھ فراخی ہے‘‘۔ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے کیا سمجھایا ہے ؟ ’’اَلَیْسَ الْصُبْحُ بِقَرِیْبٍ‘‘’’کیاصبح قریب نہیں ہے‘‘۔ کے ذریعہ کون سی حقیقت سمجھائی گئی تھی۔ غزوہ خندق کے موقع سے خندق کھودتے ہوئے قیصرو کسریٰ کی فتح کی بشارت رسول اللہ ﷺ نے کیوں سنائی تھی؟
آج بھی سارے خطرات کے باوجود بشارت کے بہت سے پہلو ہیں جو ہمیں مایوسی کے شکار افراد کو سنانا چاہئے ۔ دنیا میں سب سے زیاد ہ پھیلنے والا مذہب کون سا ہے ؟ دنیا میں سب سے زیادہ نوجوان قوت کس کے پاس ہے ؟ دنیا میں سب سے زیادہ آزمودہ نسخہ کون رکھتا ہے ؟ ہمارے دشمن زیادہ ہیں یہ بات خود اس چیز کی دلیل ہے کہ ہمارے پاس کوئی قیمتی اور طاقت ور چیز ہے جس سے لوگ خائف ہیں یااسے حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کیا یہ پہلو بشارت کا سامان نہیں رکھتے؟