And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided…(3:103)

جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو

Posted by:

|

On:

|

Quran#5|2|ur#

:’’اور دیکھو ، ایک گروہ نے جو تمہارے لئے مسجد حرام کا راستہ بند کردیا ہے تو اس پر تمہارا غصہ تمہیں مشتعل نہ کردے کہ تم بھی ان کے مقابلہ میں ناروا زیادتیاں کرنے لگو۔ نہیں، جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو، اللہ سے ڈرو، اس کی سزا بہت سخت ہے‘‘۔
تعاون کا مفہوم ہے مدد لینا ، مدد دینا ۔ یعنی دو طرفہ عمل ہے ۔ تعاون کا اصل سبب احتیاج ہے۔ ہر شخص اپنی ضرورت کی تکمیل کے لئے دوسروں کا محتاج ہے ۔ صرف اللہ بے نیاز ہے مثلاً غذا کو لے لیں کوئی غلہ اُگاتا ہے کوئی پیستا ہے کوئی روٹی بناتاہے تب ہمیں غذا ملتی ہے ۔ اسی طرح غریب مال کے لئے مالدار کا محتاج ہے تو مال دار محنت و مشقت کے لئے غریب کا محتاج ہے ۔ تاجر گاہک کا محتاج ہے تو گاہک تاجر کا محتاج ہے گویا ہر ایک اپنی ضرورت کی تکمیل کیلئے دوسرے کا محتاج ہے۔ اسی لئے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور ایک دوسرے کی مدد حاصل کیا کرو۔
بعض مواقع ایسے ہوتے ہیں کہ آدمی خود تو محتاج نہیں ہوتا البتہ دوسرے محتاج ہوتے ہیں ایسے مواقع پر کیا کرنا چاہئے ؟
ہدایت ہے کہ ایسے مواقع پر دوسروں کی مدد کرنی چاہئے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ ہم بندے کے محتاج نہ ہوں لیکن اللہ کے محتاج تو ہمیشہ ہیں۔ چنانچہ جب بندہ کسی دوسرے بندے کی مدد کرتا ہے تو جب تک وہ دوسرے بندے کی مدد کرتا ہے اس وقت تک اللہ اس کی مدد کرتا رہتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’کَانَ اللّٰہُ فِیْ عَوْنِ الْعَبَدُ مَا کَانَ الْعَبَدُ فِیْ عَوْنِ اَخِیْہٖ‘‘ (ترمذی) گویا بندے کو دوسروں کی مدد ہمیشہ کرنا چاہئے تاکہ وہ خود اللہ کی مدد کا حق دار بن سکے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بندہ دوسرے کی مددہر معاملہ میں کرے یا اس کی کوئی حد ہے اصلاً اس آیت میں اسی کی وضاحت فرمائی گئی ہے کہ ہر معاملہ میں مدد نہیں کرنی ہے بلکہ ’’بر‘‘ اور ’’تقویٰ‘‘ کے کا موں میں مدد کرنی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ’’بر‘‘ اور ’’تقویٰ‘‘ کے کاموں سے کیا مراد ہے ؟
اصلاً یہ نیک کاموں کے دو رخ بیان ہوئے ہیں ، ایک رخ تویہ ہے کہ کوئی اچھا کام کیا جائے چنانچہ جب کوئی اچھا کام کرے تو اس میں مدد کرنی چاہئے مثلاً نماز پڑھنا چاہتا ہے اسے وضو کے لئے پانی کی ضرورت ہے تو اسے پانی فراہم کرنا چاہئے ۔ کوئی احکامات الٰہی کا علم نہیں رکھتا اب ان سے آگاہ ہونا چاہتا ہے اور علم کی تڑپ رکھتا ہے تو اس کی مدد کرنی چاہئے ۔ گویا ’’بر‘‘ کی تعریف میں تمام نیک کام ’’فعل الخیرات‘‘ آتے ہیں۔ گویا نیک کام کوئی بھی کررہا ہو وہ ہماری مدد کا حق دار ہے اور اس کی مدد کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
احادیث سے تو یہاں تک معلوم ہوتا ہے ۔ مدد تو دور کی بات ہے صرف خیر کی طرف رہنمائی کردے پھر بھی وہ کرنے والے کی طرح اجر کا مستحق بن جاتاہے ۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اَلدَّالُّ عَلیٰ الْخَیْرِ کَفَاعِلِہٖ‘‘ (ابوداؤد)بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والا اس کام کو انجام دینے والے کی طرح ہے۔
اسی طرح نیک کام کا دوسرا رخ یہ ہے کہ کوئی شخص نیکی تو نہ کررہا ہو البتہ برائی سے بچنے کی کوشش کررہا ہو۔ اور برائی کو چھوڑ رہا ہو یا دوسرے لفظوں میں منکرات کو ترک کررہا ہو یا ترک کرنے کی کوشش کررہا ہو ۔ اسی ’’ترک المنکرات‘ ‘ کو یہاں ’’تقویٰ‘‘ سے تعبیر کیا گیاہے۔ مثلاً حرام کمائی منکر ہے ۔ کوئی شخص اسے چھوڑ کر حلال کمائی اختیار کرنا چاہتا ہو تو ہمیں اس کی مدد کرنی چاہئے ۔ اسی طرح کوئی شخص نشہ خوری کا عادی ہو جو منکر ہے اب اگر وہ اسے چھوڑنے میں کسی طرح کی ہم سے مدد چاہتا ہے توہمیں اس کی مدد کرنی چاہئے ایسا نہیں کہ اگر کوئی شخص برائی میں مبتلا ہے تو اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیاجائے بلکہ اسے اس سے روکنا ٹوکنا بھی اس کی مدد ہے ۔ اسی سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ خود’’امر بالمعروف ‘‘اور ’’نہی عن المنکر ‘‘بھی ایک طرح کی انسانی مدد ہے جو انسانی تقاضوں کے تحت پورا کیا جاناچاہئے ۔
یہاں یہ حقیقت بھی واضح رہنی چاہئے کہ اگر کوئی ہماری مدد نہیں کرتا تو ہم بھی اس کی مدد نہ کریں یہ اسلامی تعلیم نہیں ہے بلکہ اسلام یہ سکھاتا ہے کہ خواہ کوئی مدد کرے یا نہ کرے ہمیں ہر صورت میں خیر کے کام میں دوسروں کی مدد کرنی ہے بلکہ جو لوگ ہمیں خیر کے کام سے روکتے ہیں وہ بھی اگر کوئی اچھا کام کریں تو ہمیں اس کی مدد کرنی چاہئے۔ ہمیں ان کی راہ کا روڑا نہیں بننا چاہئے ۔ خود یہ آیت اصلاً یہی حقیقت سمجھانے کے لئے نازل ہوئی تھی چنانچہ اس آیت کا شان نزول ملاحظہ فرمائیں ۔ روایات میں آتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع سے اہل ایمان عمرہ کی غرض سے مکہ گئے تھے لیکن کفار و مشرکین نے انہیں اس سے روک دیا تھا اور آئندہ کے لئے بھی بہت سخت شرائط پر اجازت دی تھی جس کی وجہ سے اہل ایمان کے دل میں اہل کفرو شرک کے لئے ایک طرح کی شدید نفرت پیدا ہوگئی تھی چنانچہ جب مکہ فتح ہوا تو بعض صحابہ ؓ کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جس طرح انہوں نے اپنے اقتدار کے زمانے میں ہمیں عمرہ سے روک دیا تھا اسی طرح اب ہمیں قدرت و طاقت حاصل ہوچکی ہے تو ہم بھی انہیں حج و عمرہ سے روک دیں۔ چنانچہ اس خیال پر تنبیہ کرنے کے لئے یہ آیت نازل ہوئی اور ہدایت دی گئی غم و غصہ اور نفرت و انتقام میں ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ تم انہیں مسجد حرام میں داخل ہونے اور حج و عمرہ کرنے سے روک دو کیونکہ یہ عمل شعائر اللہ کی حرمت و تعظیم سے تعلق رکھتا ہے، اور شعائر اللہ کی تعظیم نیک عمل ہے ۔ چنانچہ ایسے نیک عمل میں روڑا نہیں بننا چاہئے بلکہ تعاون کرناچا ہئے ۔
یہ اسلام کا ظرف اور اس کی اعلیٰ تعلیم ہے کہ وہ دشمنوں کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے اور دشمنوں کے ظلم کا جواب ظلم سے نہیں بلکہ انصاف سے دینا سکھاتا ہے۔اور انسانیت کو کبھی پامال نہیں ہونے دیتا چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ ساری دشمنی کے باوجود جب اہل مکہ قحط میں مبتلا ہوئے تو آپﷺ نے غلہ کے ذریعہ ان کی امداد فرمائی۔ اسی طرح قرآن میں ذوالقرنین کا یاجوج و ماجوج کے ظلم کے خلاف مظلوموں کے مطالبہ پر سد (دیوار) تعمیر کرنا بھی اسی طرز عمل کی طرف اشارہ کرتاہے۔
اسی طرح اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ وہ تعاون اور مدد کے لئے قرابت کو بنیاد نہیں بناتا جیسا کہ جاہلی معاشرہ کرتا تھا اور آج بھی کرتا ہے ’’اُنْصُرْ اَخَاکَ ظَالِماً اَوْ مَظْلُوْماً‘‘اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ہو بلکہ اسلام مدد و نصرت کے لئے اصول دیتا ہے ’’بر‘‘ و ’’تقویٰ‘‘ کی بنیاد پر مدد کا حکم دیتا ہے ۔ اگر اہل ایمان ظلم ڈھا رہے ہوں تو ظلم میں ان کی مدد نہیں کی جائے گی ۔ رسول اللہ ﷺ کا واضح فرمان ہے ’’جو شخص کسی ظالم کے ساتھ اس کی مدد کرنے کے لئے چلا وہ اسلام سے نکل گیا‘‘(طبرانی ) اگر وہ منکرات میں مبتلا ہوں تو انہیںاس میں تعاون نہیں دیا جائے گا ۔ اگر وہ کسی کا حق ماررہے ہوں تو اس میں ان کا تعاون نہیں کیا جائے گا ۔ اسی لئے مجرمین کے جرم پر پردہ ڈالنا اور ان کے خلاف شہادت سے گریز کرنا گناہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کے برخلاف اگر کوئی کفر و شرک میں مبتلا ہو لیکن ظالم کے خلاف برسر پیکار ہو تو اس کی مدد کی جائے گی تاکہ ظلم کا خاتمہ ہو جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حلف الفضول میں ظلم کے خلاف غیروں کا ساتھ دیا تھا۔اور اس طرح کے کاموں کے لئے بعد میں بھی دست تعاون دراز کرنے کا عندیہ ظاہر کیا تھا۔
قرآن میں سورۃ حجرات آیت ۹ میں تو یہاں تک تعلیم موجود ہے کہ خود اہل ایمان کے دو گروہ آپس میں جھگڑ جائیں تو پہلے ان کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کرو لیکن اگر نہ مانیں تو جو زیادتی پر ہوں ان کے خلاف اہل حق کا ساتھ دو، ان کی مدد کرو یہاں تک کہ وہ اللہ کا فیصلہ ماننے کو تیار ہو جائیں پھر ان کے درمیان عدل و قسط کے ساتھ صلح صفائی کرادو۔
عام ذہن یہ پایا جا تا ہے کہ عبادات زیادہ اہم ہیں لہٰذا لوگ نماز و روزہ کو ترجیح دیتے ہیں اور بندگانِ خدا کی مدد و حاجت روائی سے غافل رہتے ہیں حالانکہ یہ رویہ درست نہیں ہے۔ جیسا کہ ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا طرز عمل ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ اعتکاف میں تھے ایک قرض دار نے مدد کی درخواست کی تو اعتکاف کی پرواہ کئے بغیر سفارش کے لئے نکل گئے ۔ سائل نے یاددلایا تو فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت کے لئے قدم اٹھائے اور اس کے لئے دروڑ بھاگ کرے تو اس کی یہ کوشش دس سال کے اعتکاف سے بہتر اور افضل ہے ‘‘(بیہقی) اس ہدایت کے بعد ہم میں سے جو لوگ بھی اس طرح کا ذہن رکھتے ہیں انہیں اپنے سوچ کی دھارا بدلنے کی ضرورت ہے ۔ کیا ہم اس کے لئے تیار ہیں؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *