[Hadith]
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُؤْشِکُ الْاُمَمُ اَنْ تَدَاعیٰ عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعیٰ الْاَکَلَۃُ اِلیٰ قَصْعَتِھَا فَقَالَ قَائِلٌ وَمِنْ قِلَّۃٍ نَحْنُ یَؤْمَئِذٍ؟ قَالَ بَلْ اَنْتُمْ یَؤْمَئِذٍ کَثِیْرٌ وَلٰکِنَّکُمْ غُثَآئٌ کَغُثَآئِ السَّیْلِ وَ لَیَنْزِعَنَّ اللّٰہُ مِنْ صُدُؤْرِعَدٌ وِّکُمُ الْمَھَابَۃَ مِنْکُمْ وَ لَیَقْذِفَنَّ اللّٰہُ فِیْ قُلُوْبِکُمُ الْوَھْنَ فَقَالَ قَائِلٌ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَ مَا الْوَھْنُ؟ قَالَ حُبُّ الدُّنْیَا وَ کَرَاھِیَۃُ الْمَوْتِ‘‘۔(رواہ ابوداؤد عن ثوبان کتاب الملاحم)[TranslationUr]
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عنقریب غیر مسلم قومیں تمہاری سرکوبی کے لئے ایک دوسرے کو بلائیں گی اور (پھر وہ سب مل جل کر) دھاوا بول دیں گی جیسا کہ بہت سے کھانے والے افراد ایک دوسرے کو بلا کر دستر خون پر ٹوٹ پڑتے ہیں ایک آدمی نے عرض کیا حضور! کیا اس وقت ہماری تعداد تھوڑی ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ اس وقت تم تعداد میں کثیر ہوگے لیکن تمہاری حیثیت سیلاب کے کوڑا کرکٹ اور جھاگ سے زیادہ نہ ہوگی اس وقت اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہوگا کہ دشمن قوموں کے دل سے تمہارا رعب ختم ہو جائے گا اور تمہارے دل ’’وھن‘‘ کا شکار ہو جائیں گے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ !’’وھن‘‘ کسے کہتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا ’’دنیا سے محبت اور موت سے نفرت ‘‘۔[/TranslationUr][/Hadith]
اس حدیث سے مندرجہ ذیل چیزیں سامنے آتی ہیں:
۱۔ اسلام کے خلاف اہل کفر کا اتحاد ’’الْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَاَحِدَۃٌ وَ الْاِسْلاَمُ مِلَّۃٌ وَاحِدَۃٌ‘‘ یعنی کفر اور اہل کفر ایک امت ہیں اور اسلام اور مسلمان ایک امت ہیں۔ دورِ نبوی میں بھی یہود اور مشرکین پیارے رسول ﷺ کے خلاف متحد تھے اور بعد کے ادوار میں بھی یہ مشاہدہ رہا کہ غیر مسلم قومیں مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کے لئے اپنے بہت سے اختلافات کو بھول کر یکجا ہو جاتی ہیں اور مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے منصوبے بناتی ہیں۔ دور حاضر میں عیسائی ممالک اور اسرائیل جس طرح مسلمانوں اور اہل عرب کے خلاف شازشیں کرتے ہیں اور ان کی تباہی و بربادی کے لئے کوشاں ہیں اسے ہر غیر جانبدار شخص محسوس کرسکتا ہے۔
۲۔ ’’کَمَا تَدَاعیٰ الْاَکَلَۃُ اِلیٰ قَصْعَتِھَا‘‘ جس طرح بھوکے یا بہت سے کھانے والے افراد ایک دوسرے کو دعوت دے کر دستر خوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں اسی طرح غیر مسلم اقوام مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں گی۔ یہ نقشہ غزوہ احزاب کے موقع پر تھا اور صلیبی جنگوں کے موقع پر بھی ، اسی طرح جب تاتاریوں نے مسلم ممالک پر یلغار کی تو صورتحال ایسی ہی تھی۔ مگر آج شاید حالات پہلے سے بھی بدتر ہیں۔ آج دنیا کی تمام اقوام مسلمانوں کے خلاف متحد ہیں، ان کے ممالک اور وسائل پر قابض ہورہی ہیں ، مسلم ممالک بدامنی انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، درجنوں ممالک میں خانہ جنگی ہے جس کے نتیجے میں لاکھوں کا قتل اور اس سے کئی گنا دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ اقوام باطلہ نے ملت اسلامیہ کو ایک نرم چارہ بنالیا ہے اب وہ جس طرح چاہتی ہیں اسے نگلتی رہتی ہیں۔
۳۔ ’’فَقَالَ قَائِلٌ وَمِنْ قِلَّۃٍ نَحْنُ یَؤْمَئِذٍ؟‘‘ پیارے رسول ﷺکی یہ بات سن کر ایک سائل نے حیرت سے سوال کیا ۔ کیا اس وقت ہماری تعدا د بہت معمولی ہوگی کہ باطل قومیں شیر ہو جائیں گی؟ رسول اکرم ﷺ نے جواب دیا نہیں بلکہ ا س وقت تم تعداد میں کثیر ہوگے لیکن تمہاری حیثیت سیلاب کے کوڑا کرکٹ او رجھاگ سے سے زیادہ نہ ہوگی‘‘عموماً طاقت و قوت کا اندازہ کثرت تعداد اور کثرت وسائل سے کیا جاتا ہے اس لئے سائل کا سوال قابل فہم ہے مگر پیارے رسول ﷺ کا جواب ایک حقیقت کی خبر دے رہا ہے ۔ کثرت تعداد کے باوجود اگر کوئی قوم اپنے اخلاق کریمانہ ، مقصد حیات اور اوصاف حمیدہ سے دستبردارہو جائے تو وہ اپناوزن اور وقار کھودیتی ہے۔ چنانچہ ایسا ہی مسلمانوں کے ساتھ بھی ہوا۔
۴۔ دشمنوں کے دلوں سے رعب کا ختم ہونا اور دلوں کا وھن کا شکار ہو جانا وہ بنیادی مسائل ہیں جن کی وجہ سے مسلمان اپنے دشمنوں کے لئے نرم چارہ ثابت ہوں گے۔ ایک صحابیؓ نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ وھن کیا ہے تو آپﷺ نے جواب دیا دنیا کی محبت اور موت سے نفرت ۔ دنیاکی محبت اور موت سے نفرت ۔ دنیا کی محبت مسلمانوں کی کمزوری کا سب سے بڑی وجہ ہے ۔ پیارے نبی ﷺ حب دنیا اور حب مال سے صحابہؓ کو عموماً خبردار کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’خبردار رہو ہر قوم کے لئے فتنہ ہے اور میری امت کے لئے فتنہ مال ہے ۔ رسو ل کریم ﷺ کی تعلیمات میں ہمیں ہر جگہ دنیا کی بے ثباتی اور بے وقعتی کا ذکر ملتا ہے ، مومن دنیا کے مال و متاع کو للچائی نگاہوں سے نہیں دیکھتا بلکہ اس کی نگاہ آخرت کے حقیقی اور دائمی اجر پر ہوتی ہے۔ وہ دنیا کو ایک طرح کا جیل خانہ سمجھتا ہے جس میں وہ اپنے اوپر ان تمام حدود اور پابندیوں کو نافذ کرتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے اس پر عائد کی ہیں وہ کافروں کی طرح شتر بے مہار نہیں ہوتا جو جہاں چاہتا ہے منہ مارتا ہے اور جیسے چاہتا ہے زندگی گزارتا ہے۔
حب دنیا میں گرفتار حصول دنیا کے لئے جائز و ناجائز ، حلال و حرام کی تمیز کھو بیٹھتا ہے ۔ مطمح نظر کے تبدیل ہو جانے کی وجہ سے وہ آخرت اور خدا کے سامنے جوابدہی کے تصور سے محروم ہو جاتا ہے، ھل من مزید کی فکر اسے ہر وقت حصول مال کے لئے مسابقت میں مشغول رکھتی ہے۔ وہ اپنے رب کو بھلا دیتا ہے نتیجتاً اس کا رب بھی اسے بھلا دیتا ہے اور وہ تباہ و برباد ہو جاتاہے۔ ایک دفعہ پیارے رسول ﷺ نے فرمایا ’’اللہ کی قسم مجھے یہ ڈر نہیں ہے کہ تم مفلس ہو جاؤ گے، میں تو ڈرتا ہوں کہ دولت دنیا تم پر کشادہ ہوجائے جیسا کہ تم سے پہلے کی امتوں پر کشادہ ہوئی تھی اور اس کے حصول کے لئے تم ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کروگے اور یہ دنیا کی فراوانی ، وسعت اور اس کی طرف بے پناہ رغبت تمہیں تباہ کرکے رکھ دے گی جیسا کہ اس نے تم سے پہلے لوگوں کو بربادی اور ہلاکت کے غار میں دھکیل دیا تھا ‘‘(بخاری)
آج پوری دنیا میں ملت اسلامیہ پر نکبت اور ادبار کی گھٹا چھائی ہوئی ہے اور اس کا سبب پوری ملت کا وھن(حب دنیا) میں مبتلا ہونا ہے، حکمراں حب دنیا کی وجہ سے ملت کے مفادات اور غیرت کا سودا کررہے ہیں، علماء حب دنیا کی وجہ سے ہر ظالم و جابر کے مویّد اور حامی بنے ہوئے ہیں ۔ زرو مال کی شدید خواہش نے ان کی زبانوں کو تالا لگادیا ہے معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ وہ غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط ثابت کرنے کے لئے اپنی پوری صلاحیتوں کو صرف کررہے ہیں۔ عوام عیش و عشرت میں مبتلا ہیں، انہیں سامان عیش و عشرت کے حصول کے سوا اور کوئی فکر نہیں ہے۔ نتیجہ ظاہر ہے حُب دنیا کی وجہ سے پوری ملت اس تباہی و بربادی سے دو چار ہے ۔ جسے الفاظ میں بیان کرنا بھی ممکن نہیں ہے ۔ اللہ رحم فرمائے ۔آمین