And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided…(3:103)

کامیابی کا فلسفہ

Posted by:

|

On:

|

اِنَّاۤ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ (1) فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (2) اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ (3)


Quran Ayah Data not found….for Surah:108, Ayah:1 and Translation:93

Quran Surah:108 Ayah:1-3

’’(اے نبی) ہم نے تمہیںکوثر عطا کردیا۔ پس تم اپنے رب ہی کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ بے شک تمہارا دشمن ہی جڑ کٹا ہے‘‘۔
یہ سورہ کوثر کی آیات ہیں۔ یہ قرآن مجید کی سب سے چھوٹی سورہ ہے۔ لیکن ’’بقامت کہتر ، بقیمت بہتر‘‘ کے مصدا ق ہے۔مختصر ہونے کے باوجود کامیابی و کامرانی کا پورا فلسفہ اس میں بیان کردیا گیا ہے۔
کوثر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ جس کے معنی کسی بھی چیز کے انتہائی کثرت کے ہوتے ہیں۔ یہاں مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس نعمت سے بھی نوازا ہے۔ بہت زیادہ مقدار میں نوازا ہے۔ چنانچہ ابن عباسؓ نے اس سے مراد ’’خیر کثیر‘‘ لیاہے یعنی ہر اچھی چیز جو زیادہ سے زیادہ مقدار میں عطا کی گئی ہے۔ اس عموم میں ہر چیز سمٹ آتی ہے۔ گرچہ اس کی تعیین کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ کسی نے نہر کوثر لیا ہے جو آپﷺ کو جنت میں عطا کی جائے گی۔ کسی نے حوض کوثر لیا ہے جس سے قیامت کے دن آپ ﷺ اپنے امتیوں کو سیراب کریں گے۔کسی نے اسلام مراد لیاہے۔ کسی نے قرآن مراد لیا ہے۔ کسی نے نبوت مراد لی ہے۔ کسی نے خانہ کعبہ مراد لیاہے۔ غرضیکہ جتنے بھی خیر کے سرچشمے ہیں سب کسی نہ کسی جہت سے ’’کوثر‘‘ کی تعریف میں شامل ہیں۔ لیکن جس زمانے میں اور پس منظر میں یہ سورہ نازل ہوئی اس کی رعایت کی جائے تو اسلام کی نعمت مراد لینا زیادہ اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے ۔
واضح رہے کہ یہ سورہ مکی ہے اور مکہ میں بھی اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب کہ آپﷺ کا ناطقہ بند کردیا گیا تھا اور آپﷺ اور آپﷺ کے اصحاب پر مصائب کے پہاڑ توڑے جارہے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کا دروازہ کھول دیا تھا گویا آپﷺ اور آپﷺ کے اصحاب اسلام قبول کرنے اور اسلام کا پیغام عام کرنے کے جرم میں خود اپنوں سے کا ٹ دئیے گئے تھے۔ گھر خاندان والوں نے علاحدگی اختیار کرلی تھی، گاؤں اور ملک والوں نے بائیکاٹ کردیا تھا ۔ گویا یکا و تنہا کردئیے گئے تھے اور پھر یہ شور مچایا جارہا تھا کہ یہ سب سے کٹ گئے ہیں لہٰذا اب ان کا وجود باقی نہیں رہے گا یہ سب بے نام و نشان ہو جائیں گے جیسا کہ عاص بن وائل کے الفاظ نقل ہوئے ہیں ’’بَتِرَ مُحَمَّدٌ مِنَّا‘‘ یعنی محمد ہم سب سے بالکل کٹ گئے ہیں گویا اب ان کا کوئی حمایتی اور پشت پناہ نہیں رہ گیا ہے۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بشارت دی گئی تھی کہ دنیا کی سب سے قیمتی چیزاسلام ہم نے تم کو عطا کیاہے ۔ اس کے ہوتے بھلا تم کیسے بے وقعت ہوسکتے ہو۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ پیشین گوئی بھی کی گئی تھی کہ جو آج تم کو بے اصل اور بے بنیاد ، جڑ کٹا اور بے حیثیت قرار دے رہے ہیں، عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب وہ خود جڑ کٹے اور بے حیثیت ہوں گے ’’اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ‘‘ بے شک تمہارا دشمن ہی بے اصل ہے۔ اس آیت میں یہی خوش خبری سنائی گئی ہے کیونکہ اصل مسبب الاسباب اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔وہ جیسے چاہتا ہے حالات کو بدلتا ہے ۔ اس نے جب تم کویہ نعمت اسلام عطا کی ہے اور اس کی اشاعت کا فرض تمہارے کاندھوں پر رکھا ہے تو وہی تمہاری دست گیری کرے گا ۔ لہٰذا تم اس سلسلے میں کسی طرح کی یاس و ناامیدی میں مبتلا نہ ہو۔ بلکہ جو تمہارا فرض ہے اس کو انجام دیتے جاؤ۔
فرض کی انجام دہی کے سلسلے میں دو اصول بھی سمجھائے گئے ایک تو نماز قائم کرنا اور دوسرے قربانی دینا۔ یعنی اس فرض کو پورا کرنے کے لئے یہ دو کام کرنا ضروری ہے۔
نماز قائم کرنا دراصل اللہ تعالیٰ سے اپنے رشتے کو استوار کرنا اور مضبوط کرنا ہے تاکہ اس کی تائید و نصرت کا سلسلہ جاری رہے، اسی طرح نماز اخلاص و للہیت کا مظہر ہے یعنی ریاو نمود سے آزاد ہوکر خالصۃً ﷲ یہ کام اس کی رضا کے لئے کیا جانا چاہئے ۔ اسی لئے ’’فَصَلِّ‘‘کے ساتھ ’’لِرَبِّکَ‘‘’’ اپنے رب کیلئے‘‘ کا لاحقہ لگا ہوا ہے۔دنیا کے ہر کام میں یکسوئی درکار ہوتی ہے۔ اسلام کے لئے بھی یکسوئی مطلوب ہے ۔ بلا یکسوئی کامیابی ہاتھ نہیں آتی۔ اس لئے حنیفیت کا مطالبہ کیا جاتاہے۔ ابراہیم علیہ السلام سب سے زیادہ اللہ کے ہوکر رہ گئے تھے اس لئے ان کی ایک خاص صفت ’’حنیف‘‘ ’یکسو‘ بھی بیان کی گئی ہے۔
قربانی دینے کے لئے ’’نحر‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیاہے جو اصلاً اونٹ کی قربانی کے لئے آتا ہے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں صرف اونٹ کی قربانی قابل قبول ہے بقیہ جانوروں کی نہیں بلکہ اونٹ عربوں کے یہاں انتہائی قیمتی جانور مانا جاتا تھا۔ جس کے پاس اونٹ ہوتا تھا وہ انتہائی مالدار بھی مانا جاتا تھا لہٰذا اونٹ کی قربانی کا مطلب یہ ہے کہ اپنی انتہائی قیمتی چیز اللہ کی خاطر قربان کردو ورنہ جہاں تک دوسرے جانوروں کی قربانی کا تعلق ہے ۔ آپﷺ اور صحابہ کرام ؓ نے دوسرے جانوروں کی بھی قربانی کی ہے۔ ترمذی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیبیہ کے مقام پر آپﷺ اور صحابہ کرام ؓ نے اونٹ کے ساتھ ساتھ گائے کی بھی قربانی کی تھی۔ بعض مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہود نے اونٹ کی قربانی کو حرام قرار دے دیا تھا لہٰذا اس کی اصلاح کے لئے بالخصوص اونٹ کی قربانی کا حکم دیا گیا ۔ بہر حال اصل مطلوب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں اسلام کے غلبے اور اشاعت کے لئے قربانی پیش کی جائے ۔ جانوروں کی قربانی تو ایک علامتی قربانی ہے۔ صرف حوصلہ و جذبہ پیدا کرنے کے لئے ورنہ جس ذات گرامی یعنی ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل ؑ کی قربانی کی یاد میں قربانی منائی جاتی ہے وہاں اصلاً جانور قربان کرنے کا معاملہ نہیں تھا۔ بلکہ اللہ کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کا معاملہ تھا۔ اپنے اعزاء و اقرباء کی محبت کو قربان کرنے کا معاملہ تھا۔ اپنا مال اور اپنا سب کچھ تج دینے کا معاملہ تھا قربانی کی اصل روح تو یہی ہے، جب کوئی اللہ کی رضا کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیتا ہے تب گویا وہ اس کا حق ادا کرتا ہے اور پھر اس بات کا مستحق بنتا ہے کہ اللہ کے انعامات کی بارش ہواور اللہ پھر اسی لحاظ سے نوازتا ہے۔ آگ کو گل گلزار کرتا ہے۔ زمزم کا چشمہ جاری کرتا ہے۔ مناسک حج کے ذریعہ اس کی اداؤں کو دوام بخشتا ہے۔
دنیوی معاملات میں بھی بلا قربانی کوئی مقصد حاصل نہیں ہوتاہے ۔ اس لئے مثل مشہور ہے No Gain Without Pain’’بغیر تکلیف کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی ‘‘ اسی طرح عربی کا محاورہ ہے’’مَنْ لَمْ یَرْکَبِ الْاَھْوَالَ لَمْ یَنَلِ الرَّغَائِبَ‘‘ ’’جو مصیبتوں کو نہیں جھیلتا وہ پسندیدہ چیز یں نہیں پاسکتا‘‘۔ اصلاً یہی اصول ہے جو ’’وَ انْحَرْ‘‘ کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے اور یہ اتنا اہم پوائنٹ ہے کہ بعض علماء نے اسے ہی اس سورہ کا دوسرا نام قرار دیا ہے ۔ یعنی سورۃ النحر یعنی وہ سورہ جس میں قربانی کا بیان ہے۔
یہاں ایک آخری بات جو سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ جس طرح رسول اللہ ﷺ اور آپﷺ کے اصحاب ؓ کا ناطقہ بند کردیا گیا تھا اسی طرح اسلامی بیداری اور تحریکات اسلامی کی کوششوں کے نتیجے میں آج بھی اہل اسلام اور امت مسلمہ کا ہر جگہ ناطقہ بند کیاجارہا ہے ۔ لیکن اس پر گھبرانے اور مایوس ہونے کی ضرورت نہیں یہ تو زندگی اور پیش قدمی کی علامت ہے۔ بظاہر حالات ناسازگار سہی، لیکن جو ذات حالات کو کنٹرول کرنے والی ہے اگر ہم اس سے اپنا تعلق مضبوط کرتے ہیں اور اس راہ میں صبر و استقامت کے ساتھ مطلوبہ قربانیاں دیتے ہیں توپھر وہ ذات اپنی رحمت سے حالات کو سازگار بھی بنا سکتی ہے۔ ہم اپنا فرض پورا کریں پھر دیکھیں اللہ کیا نظارہ دکھاتا ہے۔ کیسے اہل حق کو بلند کرتا ہے اور دشمنان حق کی جڑ کاٹتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *