عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ وَ أَبِیْ سَعِیْدٍ قَالاَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ لاَ یَقْعُدُ قَوْمٌ یَذْکُرُوْنَ اﷲَ اِلاَّ حَفَّتُہُمْ الْمَلاَئِکَۃُ وَغَشِیَتُھُمْ الْرَحْمَۃُ وَ نَزَلَتْ عَلَیْھِمُ السَکِیْنَۃُ وَذَکَرَھُمُ اﷲُ فِیْمَنْ عِنَدَہٗ‘‘(رواہ مسلم فی کتاب الذکر و الدعائ)
ترجمہ:— حضرت ابوہریرہؓ اور ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا جب بھی لوگ اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور رحمت ان پر چھا جاتی ہے ان پر سکینت نازل ہوتی ہے اور اللہ ان کا ذکر ان لوگوں میں کرتا ہے جو اس میں پاس ہوتے ہیں۔
تشریح: — حدیث میں اللہ کے ذکر کی فضیلت اور ذکر کرنے والوں کا مقام و مرتبہ بیان کیا گیا ہے ذکر سے مراد ایسے اعمال کی پابندی ہے جن کو اللہ نے انسان کے لئے ضروری قرار دیاہے ۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ بندۂ مومن کا ہر عمل اگر اس سے مقصود خوشنودی الٰہی ہے تو وہ ذکر ہے۔
یہ ذکر دل سے بھی ہوتا ہے یعنی انسان کائنات کے ذرے ذرے میں پھیلی ہوئی ان نشانیوں اور دلائل پر غور و فکر کرے جن سے اللہ کی ذات صفات کی معرفت اور ان کا ادراک حاصل ہوتا ہے اللہ نے فرمایا ’’اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اﷲَ قِیَٰماً وَقُعُوْداً وَعَلَیٰ جُنُوْبِھِمْ وَیَتَفَکَّرُ وْنَ فِیْ خَلْقِ الْسَّمَٰوَٰتِ وَ الْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھَٰذَا بَٰطِلاً سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ الْنَّارِ‘‘ (آل عمران:۱۹۱)جو اٹھتے ، بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غور وفکر کرتے ہیں (وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں) پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے پس اے رب ! ہمیں دوزح کے عذاب سے بچا لے۔
یہ ذکر اعضاء کے ذریعہ بھی ہوتاہے جیسے انسان اپنے آپ کو اللہ کی اطاعت میں مشغول رکھے اللہ نے فرمایا ’’اَقْمِ الصَّلوٰۃَ لِذِکْرِیِ‘‘ (طہٰ ۲۴) میری یاد کیلئے نماز قائم کرو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اِنَّمَا جَعَلَ الطَوَافُ و الْسَعْی بَیْنَ الصَفَا والْمَرْوَۃَ ورَمِیْ الْجِمَارِ لِاِقَامَۃِ ذِکر اﷲِ‘‘ (رواہ ابوداؤد) طواف صفا اور مروہ کے درمیان سعی کنکری مارنا اللہ کے ذکر کے لئے ہے۔ ذکر زبانی بھی ہوتا ہے جیسے اللہ کی تسبیح و تمہید اور تہلیل کے لئے مسنون اوراد و وظائف کا اہتمام کیا جائے تاکہ اس کی عظمت اور جلالت کا ہمیشہ استحضار رہے۔
ذکر الٰہی اسلام کی اصل روح اور بنیاد ہے اس کے بغیر انسانی زندگی کو وہ زندگی حاصل نہیں ہوتی جو اسلام کو مطلوب ہے اللہ کی یاد اور اس کا خیال ہی ہے جو انسان کو مستقل اس کی بندگی سے جوڑے رکھتی ہے جس طرح جسمانی وجود کی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ سانس کی آمد و رفت کا سلسلہ ہمہ وقت جاری رہے ٹھیک اسی طرح ہمارے روحانی اور اخلاقی وجود کے بقاء کے لئے ضروری ہے کہ ہم ہمہ وقت اللہ کی طرف راغب رہیں۔ ہماری زبان ہمیشہ اس کے ذکر سے تر رہے اللہ کی یاد دل میں اس طرح رچ بس جائے کہ وہ ہمارے شعور سے گزر کر تحت الشعور اور لاشعور تک اتر جائے کیونکہ اسلامی زندگی کا عین تقاضہ ہے کہ آدمی کی ر گ رگ میں اللہ کی یاد رچ بس جائے اس دائمی ذکر کے بغیر ہماری وہ عبادتیں جو مخصوص اوقات میں ادا کی جاتی ہیں کوئی خاص اثر نہیں دکھا سکتیں اسی لئے قرآن کریم میں صرف ذکر کی نہیں بلکہ ذکر کثیر کا حکم دیا گیا ہے ۔ ارشاد فرمایا ’’یَا اَیُّھَا الَذِّیْنَ اَمَنُوْا اذْکُروا اﷲَ ذِکْراً کَثِیراً‘‘ (الاحزاب :۱۴) ذکر الٰہی کی اہمیت کے پیش نظر پورے دین کو ذکر الٰہی سے تعبیر کیا ہے
وَّاَنْ لَّوِ اسْتَقَامُوْا عَلَى الطَّرِيْقَةِ لَاَسْقَيْنٰهُمْ مَّآءً غَدَقًا (16) لِّنَفْتِنَهُمْ فِيْهِ وَمَنْ يُّعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّه يَسْلُكْهُ عَذَابًا صَعَدًا (17)
Quran Ayah Data not found….for Surah:72, Ayah:16 and Translation:93
Quran Surah:72 Ayah:16-17
اور (اے نبی) کہومجھ پر یہ وحی بھی کی گئی ہے کہ لوگ اگر راہ راست پر ثابت قدمی سے چلتے تو ہم انہیں خوب سیراب کرتے ۔ تاکہ اس نعمت سے ان کی آزمائش کریں اور جو اپنے رب کے ذکر سے منہ موڑے گا اس کا رب اسے سخت عذاب میں مبتلا کردے گا۔
اسی لئے عبادتوں سے فراغت کے بعد خصوصی طور سے ذکر الٰہی کی تاکید کی گئی ہے جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ذکر ایک ایسی عبادت ہے جس سے کسی بھی حالت میں فراغ مطلوب نہیں ہے اور یہ عبادت ہمیشہ جاری رہنی چاہئے اور وظیفہ حیات بنالینا چاہئے ’’فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلوٰۃَ فَاِْکُرُوْا اﷲَ قِیَاماً وَّقُعُوْداً وَّ عَلیٰ جُنُوْبِکُمْ‘‘ (النساء ۱۰۳) پھر جب نماز سے فارغ ہو جاؤ تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ، ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے رہو ۔
قرآن و سنت کے ارشادات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اعمال اور عبادات کی روح اور اس کا مقصد ذکر الٰہی ہے اس سے تساہلی اور اعراض موجب خسران ہے اور یہ منافقین کی صفت ہے اللہ نے ارشاد فرمایا
اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَهُوَ خَادِعُوْهُمْ وَاِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى يُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا (142)
Quran Ayah Data not found….for Surah:4, Ayah:142 and Translation:93
Quran Surah:4 Ayah:142
یہ منافق اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی کررہے ہیں حالانکہ درحقیقت اللہ ہی نے انہیں دھوکہ میں ڈال رکھا ہے جب یہ نماز کے لئے اٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اٹھتے ہیں اور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔
’’حَفَّتُہُمْ الْمَلاَئِکَۃُ ‘‘فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں ۔ دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی جانب سے کچھ فرشتے اسی کام پر مامو رہیں کہ وہ ان لوگوں کی تلاش میں رہیں جو اللہ کا ذکر کرتے ہوں جب کسی جگہ ذکر کرنے والوں کو پاتے ہیں تو اپنے ساتھیوں کو پکار تے ہیں کہ آؤ جس چیز کی ہمیں تلاش تھی وہ یہاں موجود ہے پھر وہ ذکر کرنے والوں کو اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں اور آسمان دنیا تک پھیل جاتے ہیں۔
’’وَغَشِیَتُھُمْ الْرَحْمَۃُ ٗ‘‘اور رحمت ان پر چھا جاتی ہے اللہ کی رحمت انہیں گھیر لیتی ہے وہ اللہ کی خصوصی رحمت کے مستحق بن جاتے ہیں اور جو شخص رحمت الٰہی کا مستحق بن جائے اس سے بڑا خوش نصیب کون ہوسکتا ہے۔
’’وَ نَزَلَتْ عَلَیْھِمُ السَکِیْنَۃُ ‘‘اور ان پر سکینت نازل ہوتی ہے اللہ انہیں سکون اور اطمینان کی دولت سے نوازتا ہے جس سے ان کے شبہات اور ترددات ختم ہو جاتے ہیں یہ ان کے لئے خصوصی عطیہ ہے یہ سکینت کس طرح نازل ہوتی ہے اس کی طرف صحیح بخاری کی حدیث میں اشارہ ملتا ہے کہ جسے امام بخاری اپنی صحیح میں سورۃ الکہف کی فضیلت میں لائے ہیں کہ ایک آدمی (اسید بن حضیر) سورۃ الکہف کی تلاوت کررہے تھے اور ان کے ایک طرف ایک گھوڑا دو رسیوں میں بندھا ہوا تھا اس وقت ایک ابر رویہ سے آیا اور نزدیک سے نزدیک تر ہونے لگا ان کا گھوڑا اس کی وجہ سے بدکنے لگا پھر جب صبح کے وقت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں وہ حاضر ہوئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو رسول اکرم ﷺ نے فرمایا وہ سکینہ تھا جو قرآن کی تلاوت کی وجہ سے اتر ا تھا۔
’’وَذَکَرَھُمُ اﷲُ فِیْمَنْ عِنَدَہٗ‘‘اور اللہ ان فرشتوں میں ان کا ذکر کرتا ہے جو اس کے قریب ہیں نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ ان کا ذکر فرشتوں کے سامنے فخر کرتے ہوئے کرتا ہے (مسلم:۲۷۰۱)یہ بندے کیلئے کتنے بڑے شرف کی بات ہے کہ اس کا رب اس کا ذکر اپنے مقرب فرشتوں میں کرے ۔
ذکر ایک عظیم عبادت ہے اور عبادت آداب کی متقاضی ہوتی ہے اس لئے ذکر کرتے ہوئے درج ذیل آداب کی رعایت ضروری ہے :
(۱) ذکر اللہ کی کبریائی اور بڑائی کو یاد رکھتے ہوئے عاجزی اور انکساری کے ساتھ کی جائے ۔
(۲) اللہ کا ذکر اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے دل پر خشیت طاری کرکے کیا جائے۔
(۳) اللہ کا ذکر اونچی آواز کے بجائے پست آواز میں کیا جائے تاکہ ریاکاری کا شبہ نہ ہو اور لوگوں سے اپنی تعریف سننے کی خواہش دل میں نہ پیدا ہو۔
(۴) اللہ کا ذکر مسنون الفاظ اور مسنون طریقے سے ہی کیا جائے خود ساختہ الفاظ اور من گھڑت طریقوں سے کلی اجتناب کیا جائے تو ہی انسان رحمت الٰہی اور سکینت کی نعمت سے سرفراز ہوگا۔
ذکر الٰہی شعور کے ساتھ کیا جائے تو جہاں دلوں کو اطمینان نصیب حاصل ہوگا وہیں اللہ کی معیت بھی حاصل ہوگی اور جس کو معیت الٰہی نصیب ہو جائے وہ شیطان اور اس کے وسوسوں سے بھی محفوظ ہو جائے گا اور عرش الٰہی کا سایہ بھی اسے نصیب ہوگا اور ذکر سے اعراض اور پہلوتہی خسران کا سودا ہے ایسے لوگوں پر اللہ شیطان کومسلط کردیتا ہے اور اس کی معیشت تنگ کردیتا ہے اور اس سے بڑا نقصان کیاہوسکتاہے کہ اللہ اس کی معیشت تنگ کردے تو دنیا برباد ہو جائے اور شیطان مسلط کردے تو آخرت برباد ہو جائے ۔ اللہ ہم سب کو ذکر الٰہی کی توفیق دے ۔آمین