فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَاۤ اٰتَيْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا (65) قَالَ لَهٗ مُوْسٰى هَلْ اَتَّبِعُكَ عَلٰٓى اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا (66) قَالَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيْعَ مَعِىَ صَبْرًا (67) وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلٰى مَا لَمْ تُحِطْ بِه خُبْرًا (68) قَالَ سَتَجِدُنِىْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ صَابِرًا وَّلَاۤ اَعْصِىْ لَكَ اَمْرًا (69) قَالَ فَاِنِ اتَّبَعْتَنِىْ فَلَا تَسْـَٔـلْنِىْ عَنْ شَىْءٍ حَتّٰٓى اُحْدِثَ لَـكَ مِنْهُ ذِكْرًا (70)
Quran Ayah Data not found….for Surah:18, Ayah:65 and Translation:93
Quran Surah:18 Ayah:65-70
اور وہاں انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا، اور اپنی طرف سے ایک خاص علم عطا کیا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اُس سے کہا ’’کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے بھی اُس دانش کی تعلیم دیں جو آپ کو سکھائی گئی ہے ‘‘؟ اس نے جواب دیا ’’آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے ‘‘ اور جس چیز کی آپ کو خبر نہ ہو آپ اس پر صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا ’’ان شاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی معاملہ میں آپ کی نافرمانی نہ کروں گا ‘‘۔ اس نے کہا ’’اچھا، اگر آپ میرے ساتھ چلتے ہیں تو مجھ سے کوئی بات نہ پوچھیں جب تک کہ میں خود اُس کا آپ سے ذکر نہ کروں‘‘۔
ان آیات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے خلیفہ یوشع بن نون ؑ کا تعلیمی سفر نامہ بیان ہوا ہے، تعلیم و تعلم سے تعلق رکھنے والوں کے لئے اس میں بڑی رہنمائیاں ہیں ۔ ان آیات سے تعلیم و تعلم کے بہت سے آداب پر روشنی پڑتی ہے۔
(۱) سب سے اہم بات یہ ہے کہ علم کی کوئی حد نہیں ہے ۔ کوئی کتنا ہی جانکار ہو، پھر بھی علم کا اتھاہ سمندر غواصی کے لئے باقی رہتا ہے جس سے طالب علم علم کے موتی چن چن کر اکٹھا کرسکتا ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کو علم نبوت حاصل تھا جس سے اعلیٰ و ارفع کوئی علم نہیں لیکن پھر بھی وہ ضرورت محسوس کرتے تھے کہ مزید علم حاصل کریں چنانچہ تفسیر ابن جریر میں عبداللہ ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دریافت کیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ جو اب ملا وہ جو عالم ہونے کے باوجود علم کی جستجو میں رہے ، ہر ایک سے سیکھتا رہے کہ ممکن ہے کوئی ہدایت کا کلمہ مل جائے یا کوئی بات گمراہی سے نکلنے کی ہاتھ لگ جائے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر دریافت کیا زمین پر تیرا کوئی بندہ مجھ سے بھی زیادہ علم رکھتا ہے۔ جواب ملا: ہاں! پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دریافت فرمایا وہ کون ہے ؟ جواب ملا، خضر علیہ السلام پھر دریافت فرمایا : میں انہیں کہاں تلاش کروں ؟ جواب ملا : دریاکے کنارے پتھر کے پاس جہاں سے مچھلی بھاگ کھڑی ہو پس حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کی جستجو میں چل دئیے۔
(۲) حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس طرز عمل سے اس بات پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ تحصیل علم کے لئے کوئی عمر مخصوص نہیں ہے بلکہ ہمیشہ علم کا جویا رہنا چاہئے صرف بچپن میں علم حاصل کرنا اور بقیہ عمر میں تحصیل علم سے غافل رہنا صحیح شیوہ نہیں بلکہ پوری زندگی تحصیل علم کیلئے کوشاں رہنا چاہئے ۔ پیارے نبیؐ نے اسی چیز کی طرف نشاندھی کرتے ہوئے فرمایا ہے۔’’اُطْلُبِ الْعِلْمَ مِنَ الْمَھْدِ اِلَی اللَّحْدِ‘‘گود سے گور تک علم حاصل کرو۔(بیہقی)
(۳) حضرت موسیٰ علیہ السلام کے طرز عمل سے یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ علم جس سے بھی ملے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ نے جس کی طرف رہنمائی کی تھی اس کے لئے ’’عَبْداً‘‘(بندہ) کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ مراد خضر علیہ السلام ہیں جیسا کہ بخاری کی صحیح حدیث سے معلوم ہوتاہے ۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ اگر وہ نبی تھے جیسا کہ سمجھا جاتا ہے تو گویا وہ ہم رتبہ تھے اور انہوں نے ان سے علم حاصل کرنے کی کوشش کی حالانکہ ہمارے یہاں عام طور سے ہم رتبہ سے علم حاصل کرنے کو کسر شان سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر یہ مان لیں کہ وہ ولی تھے جیسا کہ بعضوں کا خیال ہے تب تو وہ نبی سے کم تر تھے پھر بھی انہوں نے ان سے علم حاصل کرنے کیلئے سفر کیا تو گویا کم تر کے پاس بھی اگر کوئی خاص علم ہے تو اس سے استفادے میں کوئی حرج نہیں حالانکہ فی زمانہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ ذھناً و عملاً اس بات کیلئے تیار نظر نہیں آتے۔ بہت سا نقصان اٹھانا گوارا کرلیتے ہیں لیکن کم تر سے رجوع نہیں کرتے۔ اس طرز عمل پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ احادیث میں تو ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے ’’حکمت گمشدہ پونجی ہے جہاں ملے وہاں سے لے لو کیونکہ تم اس کے زیادہ حق دار ہو‘‘(ترمذی)
(۴) تحصیل علم کیلئے سفر قدیم روایت ہے ۔ جس نے سفر کیا اس نے زیادہ فیض اٹھایا اور زیادہ اونچا مقام حاصل کیا تاریخ میں سینکڑوں مثالیں بھری پڑی ہیں بلکہ بہتوں کا تعلیمی سفر نامہ تو کلاسیکی سمجھا جاتاہے مثلاً امام شافعیؒ کا علمی سفر نامہ ایک سنہرے باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج بھی وہ طلبہ زیادہ کامیاب ہوتے ہیں جو کسب فیض کیلئے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور شہد کی مکھی کی طرح ہر صاحب علم سے رس چوس چوس کراپنے آپ کو سیراب کرتے ہیں۔
(۵) طلب علم کیلئے عجز و فروتنی اور انکساری و خاکساری زیادہ موزوں ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب خضر علیہ السلام کے پاس پہنچے تو ان سے علم سکھانے کے لئے بالکل طالب علمانہ انداز میں درخواست کی۔ نہ کوئی مطالبہ رکھا اور نہ کوئی استحقاق جتایا۔
آج جوپیٹرن ہے اس میں نام نہاد فیس کی بنیاد پر استحقاق کارجحان اور ذہنیت پنپ رہی ہے۔ جو مخلصانہ تعلیم و تعلم کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ معلم اور استاد کا ذہن بھی فیس کے بقدر تعلیم کا بنتا جارہا ہے جو معیار تعلیم کو بُری طرح متاثر کررہاہے۔
(۶) حضرت موسیٰ علیہ السلام کی درخواست کے الفاظ تھے ’’ھَلْ اَتَّبِعُکَ عَلیٰ اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْداً‘‘ ’’کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں/یا آپ کے پیچھے پیچھے چل سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے اس دانش کی تعلیم دیں جو آپ کو سکھائی گئی ہے‘‘۔ گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام سمجھ رہے تھے کہ علم کے حصول کے لئے صحبت اور تابعداری ضروری ہے چنانچہ انہوں نے صحبت اختیار کرنے کی اجازت چاہی۔ صرف سوال کرنے اور جواب حاصل کرنے سے پختہ علم حاصل نہیں ہوتا۔ اگر پختہ علم مطلوب ہے تو اس کے لئے استاد کی صحبت اور تابعداری ضروری ہے چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ جنہوں نے استاد کی صحبت اٹھائی ہے اور تابعداری کی ہے وہ زیادہ کامیاب اور سلامت رہے ہیں اور جنہوں نے صحبت سے اعراض کیاہے وہ محروم رہے ہیں اور محرومی کا شکار ہوئے ہیں۔
(۷) حضرت موسیٰ علیہ السلام کی درخواست میں صرف تعلیم دینے کی درخواست نہیں ملتی بلکہ انہوں نے لفظ ’’رُشْدًا‘‘ بھی استعمال فرمایا ہے جس کا مطلب ہے ’’راہ راست کی طرف رہنمائی کرنے والی تعلیم ‘‘ گویا محض تعلیم درکار نہیں بلکہ تعلیم کا جو اصل مقصود ہے یعنی صحیح و غلط کی تمیز کاملکہ پیدا ہونا اور راہ راست کی رہنمائی حاصل کرنا وہ مقصود ہے اور یہ مقصد پورا کرنے والی تعلیم کا میں طلب گار ہوں۔ کیا تحصیل علم کے وقت ہمارے اور آپ کے سامنے بھی یہ مقصد مستحضر رہتاہے؟
(۸) خضر علیہ السلام کا یہقول’’اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْراً‘‘ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے۔ اس بات پر دلالت کررہاہے کہ علم کا حصول ایک مشکل کام ہے ۔ اس کے لئے طالب علم کے اندر صبر کی صفت پایا جانا ضروری ہے۔ وہ محنت کرسکتا ہو، مشکلات کے مقابلے میں جم سکتا ہو، فوری نتیجہ نہ چاہتا ہو تب تو وہ علمی معرکے سرکر سکتا ہے ورنہ پھر وہ اس محاذ پر زیادہ دیر ٹک نہیں سکتا۔ اس راہ کے ان تقاضوں سے طلبہ کو آگاہ کرتے رہنا چاہئے تاکہ وہ ذھناً تیار ہوکر اس میدان میں قدم رکھیں جب کہ خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شروع ہی میں ذھناً و عملاً تیار کرنے کے لئے آگاہ کردیا تھا۔
(۹) ’’وَکَیْفَ تَصْبِرُ عَلیٰ مَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ خُبْراً‘‘ اور جس چیز کی آپ کو خبر نہ ہو آخر آپ اس پر صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں؟ خضر علیہ السلام کا یہ بیان دراصل اس بات کا اعتراف ہے کہ ایک استاد کو یہ بات یقینی طور پر تسلیم کرنی چاہئے کہ طالب علم اپنی کم علمی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے بے صبری کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔ اس طرح کے مظاہرے غیر فطری نہیں ہیں۔ اس لئے استاد کو ایسی صورت حال پر جز بز نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس کا خوبصورتی سے مداویٰ کرنا چاہئے ۔ طلبہ کو اس راہ کے پیچ وخم سے آگاہ کرنا چاہئے، ان کے اندر خود اعتمادی پیدا کرنا چاہئے اور عہد و معاہدہ کے ذریعہ انہیں پابند بنانا چاہئے جیسا کہ خضر علیہ السلام نے کیا تھا۔ طلبہ کو اس راہ میں ثابت قدم رکھنے کے لئے ناقابل فہم امور کو حسب ضرورت کھول کر بیان بھی کرنا چاہئے البتہ موزوں وقت کا خیال رکھنا ضروری ہے جیسا کہ خضر علیہ السلام نے پہلے ہی مرحلے میں ساری حکمتیں کھول کر نہیں بتائیں لیکن جب موزوں وقت آگیا تو سب کچھ کھول کر بتادیا تاکہ طالب علم کا اشکال دور ہو جائے اور اسے شرح صدر حاصل ہو جائے ۔
(۱۰) ’’فَلاَ تَسْأَلْنِیْ عَنْ شَیئیٍ حَتّٰی اُحْدِثَ لَکَ مِنْہٗ ذِکرْاً‘‘ تو مجھ سے کوئی بات نہ پوچھیں جب تک کہ میں خود اس کا آپ سے ذکر نہ کروں۔
خضر علیہ السلام کے اس حکم سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ استاد کیلئے طالب علم کے ہر سوال کا جواب دینا ضروری نہیں ہے ۔ استاد کی صوابدید پر ہے کہ اگر مناسب سمجھتا ہے تو جواب دے اور اگر نامناسب سمجھتا ہے تو منع کردے۔ طالب علم کی سطح اور حدود کے لحاظ سے یہ فیصلہ استاد کو کرنا ہے۔استاد پر ہرگز لازم نہیں کہ وہ ہر سوال کا جواب دے یااسے ہر سوال کا جواب دینے کا پابند بنایا جائے ۔ ’’اَنْزِلِ النَّاسَ عَلیٰ مَنَازِلِھِمْ‘‘ لوگوں کو ان کے مقام پر رکھو۔(نسائی، احمد)کی ہدایت اسی لئے ہے کہ ہر ایک کے ساتھ اس کی حیثیت کے مطابق سلوک کیا جائے۔ خود اللہ کے رسول ؐ ہر سوال کا جواب نہیں دیا کرتے تھے۔ بلکہ بعض سوالات سے تو آپؐ نے منع کردیا تھا۔ مثلاً اللہ کی ذات کے بارے میں سوال ، تقدیر کے بارے میں سوال ۔ کیونکہ یہ عام انسانی سطح سے اوپر ہے۔ اسی طرح طالب علم کی سطح سے اوپر جو بھی سوال ہو یا جو بھی بحث ہو اس سے روکا جاسکتا ہے۔ اسے نہ معلم کی کم علمی کا نام دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی تعلیم سے فرار قرار دیا جاسکتا ہے۔ بلکہ یہ اپنی کم مایہ حیثیت کو سمجھنے اور سمجھانے کا معاملہ ہے۔ جو لوگ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے اور ہر سوال کا جواب ڈھونڈنے اور دینے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں وہ گمراہی سے کم ہی بچ پاتے ہیں۔’’اَعَاذَنَا اﷲُ مِنْھَا‘‘