And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided…(3:103)

طوفانوں کے نرغے میں وسیلہ ظفر

Posted by:

|

On:

|

اُتْلُ مَاۤ اُوْحِىَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ (45)


Quran Ayah Data not found….for Surah:29, Ayah:45 and Translation:93

Quran Surah:29 Ayah:45

:’’(اے نبیﷺ) تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمہاری طرف وحی کے ذریعہ سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو، یقینا نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کاذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے۔ اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگ کرتے ہو‘‘۔

یہ اکیسویں پارے کی پہلی اور سورۃ العنکبوت کی پینتالیسویں آیت ہے۔ بظاہر اس آیت میں رسول اللہ ﷺ سے خطاب ہے لیکن اصلاً آپﷺ کے پیروکاروں سے خطاب ہے، اس کا واضح قرینہ یہ ہے کہ شروع میں واحد کے صیغے میں آپ کو مخاطب کیا گیا ہے لیکن آیت کے اخیر میںجمع کا صیغہ استعمال کرکے سب کو شامل کرلیا گیا ہے اس لئے اس آیت میں جو حکم ہے وہ صرف نبی کریم ﷺ سے مخصوص نہیں بلکہ یہ حکم ہر ایک کے لئے ہے ۔

اس آیت سے پہلے حق و باطل کی کشمکش اور اہل حق و اہل باطل کی تاریخ بیان کی گئی ہے ۔ اس میں جہاں اہل حق کے لئے تسلی ہے وہیں اہل باطل کے لئے دھمکی ہے ۔ اس روداد کے بعد مذکورہ آیت میں اہل حق کو وہ تدبیر یں سمجھائی گئی ہیں جن کے ذریعہ حق و باطل کی کشمکش اور موجود طوفان کے درمیان وہ کامیابی سے گزر سکتے ہیں اور دنیا وآخرت کی کامیابی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔ انہیں تدبیروں سے دنیا کی اصلاح بھی کی جاسکتی ہے اور خود اپنی اصلاح بھی کی جاسکتی ہے یہ تدبیریں بنیادی طور پر تین ہیں۔ (۱)تلاوت آیات (۲) اقامت صلوٰۃ (۳) ذکرالٰہی

پہلی تدبیر تلاوت آیات ہے ۔ تلاوت آیات دراصل دعوت الی اللہ کا سرنامہ ہے جو انبیائی فرائض میں سے پہلا فرض رہاہے۔ انبیائی طریقہ کار میں سب سے ابھری ہوئی چیز یہی تھی کہ وہ اللہ کی آیات پڑھ پڑھ کر لوگوں کو سناتے تھے تاکہ شرک و بت پرستی کی کمزوری اورقباحت لوگوں پر واضح ہو اور توحید کے دلائل سے آگاہ ہوکر بندگی رب کی دولت سے مالا مال ہو جائیں ۔ ذمہ دارانہ حیثیت کا احساس ہو اور قیامت کی جوابدہی کا جذبہ ابھرے۔

بد قسمتی سے تلاوت آیات کا یہ مفہوم عام طور پرنظروں سے اوجھل ہوگیا ہے ۔ صرف ناظرہ خوانی کو تلاوت آیات سمجھا جاتا ہے۔ صرف انفرادی طور پر پڑھ لینا بس وہی کافی ہے ۔ دوسروں کو سنانے کی بات توگویا حاشیہ خیال ہی میں نہیں آتی ۔

میرے اس محاکمہ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انفرادی طور پر تلاوت آیات کا کوئی فائدہ نہیں اور یہ سلسلہ بند کردینا چاہئے ۔ انفرادی طور پر تلاوت آیات کے بھی اپنے فوائد ہیں وہ سلسلہ بھی جاری رہنا چاہئے۔ تلاوت کرنے والا جب تک تلاوت میں مشغول رہتا ہے اس وقت تک کم از کم دوسری خرافات سے محفوظ رہتا ہے۔ جو شخص مسلسل تلاوت کا اہتمام کرتا ہے ایک نہ ایک دن وہ سمجھنے کی طرف راغب ہوسکتاہے، نیز یہ کہ وہ خود خواہ اثر قبول نہ کرے لیکن کائنات کی دوسری چیزیں اثر قبول کرتی ہیں۔ اگر یہ سلسلہ بند ہو جائے تو کائنات کی دوسری چیزوں کی اثر پذیری کا سلسلہ بھی بند ہو جائے گا جو بڑی محرومی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تلاوت آیات خود پڑھنے والے کی ثابت قدمی کا ذریعہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْـقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً ۛ كَذٰلِكَ ۛ لِنُثَبِّتَ بِه فُـؤَادَكَ وَرَتَّلْنٰهُ تَرْتِيْلًا (32)


Quran Ayah Data not found….for Surah:25, Ayah:32 and Translation:93

Quran Surah:25 Ayah:32

تاکہ اس (قرآن) کے ذریعہ ہم تمہارے دل کو جمادیں۔

میرا مدعا صرف اتنا ہے کہ انفرادی تلاوت آیات کے ساتھ ساتھ اس کے وسیع مفہوم کو بھی سمجھنا چاہئے اور اس کا اہتمام کیا جانا چاہئے کہ اصل مقصد حاصل ہوسکے۔

دوسری تدبیر اقامت صلوٰۃ بتائی گئی ہے۔ یہ دراصل تلاوت آیات کی عملی شکل کی طرف نشان دہی بھی ہے اور انفرادی و اجتماعی تربیت کا سامان بھی ہے۔ اسی لئے اس حکم کے ساتھ اس کی افادیت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ ’’اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھیٰ عَنِ الْفَحْشَائِ وَ الْمُنْکَرِ‘‘بے شک نماز فحشاء اور منکرسے روکتی ہے۔گویا اقامت صلوٰۃ کا یہ لازمی نتیجہ برآمد ہونا چاہئے ۔ اگر یہ نیتجہ برآمد نہیں ہوتا تو گویا اقامت صلوٰۃ میں کہیں کھو ٹ ہے اور ایسی نماز کی کوئی حیثیت نہیں۔ چنانچہ عمران بن حصین ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’مَنْ لَمْ تَنْھَہٗ صَلَوٰتُہٗ عَنِ الْفَحْشَائِ وَ الْمُنْکَرِ فَلاَ صَلوٰۃَ لَہٗ‘‘(ابن ابی حاتم ) جسے اس کی نماز نے فحش اور برے کاموں سے نہ روکا اس کی نماز نہیں ہے۔اسی طرح ابن عباسؓ رسول اللہﷺ سے نقل کرتے ہیں: ’’مَنْ لَمْ تَنْھَہٗ صَلَوٰتُہٗ عَنِ الْفَحْشَائِ وَ الْمُنْکَرِ لَمْ یَزْدَدُ بِھَا مِنَ اﷲِ اِلاَّ بُعْداً‘‘(طبرانی)جس کی نماز نے اسے فحش اور برے کاموں سے نہ روکا اس کو اس کی نماز نے اللہ سے اور زیادہ دور کردیا۔

آج اگر ہماری نمازیں بے اثر ہیں تو یہ ہمارا فرض ہے کہ اس پیمانہ پر ہم اپنی نمازوں کا جائزہ لیں اور اس کے اہتمام میں پائے جانے والے کھوٹ کو درست کریں تاکہ واقعی اس کا فائدہ ہمیں حاصل ہو۔

تیسری تدبیر ذکر الٰہی ہے ۔ یعنی اللہ کی معبودانہ حیثیت کو ہر وقت ذہنوں میں مستحضر رکھنا تاکہ ہر قدم پر اللہ کی رہنمائی ہمیں حاصل رہے اور ادھر ادھر بھٹکنے سے ہم محفوظ رہ سکیں ۔ گویا یہ خیر کا سرچشمہ ہے ۔ نیکیوں پر ابھارنے والی اور سبقت الی الخیرات پر آمادہ کرنے والی چیز ہے ۔ اسی لئے فرمایا گیا ’’وَ لَذِکْرُ اﷲِ اَکْبَرُ‘‘اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے ۔ سیاق کے تناظر میں تو اس کا مفہوم یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ذکر الٰہی نماز کے مقابلے میں بڑی چیز ہے کیونکہ خود اقامت نماز کا حکم ذکر الٰہی کے لئے دیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے

اِنَّنِىْۤ اَنَا اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدْنِىْ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِىْ (14)


Quran Ayah Data not found….for Surah:20, Ayah:14 and Translation:93

Quran Surah:20 Ayah:14

میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔ لیکن اس جملے کا اس سے زیادہ عظیم اور سرور آور مفہوم ہے کہ اس مفہوم کا احساس ہی انسان کے اندر نئی امنگ اور نیا حوصلہ بھر دیتا ہے ۔ وہ مفہوم یہ ہے کہ تلاوت آیات اور اقامت صلوٰۃ کے نتیجہ میں اللہ کا تمہیں یاد کرنا تمہارے اللہ کو یاد کرنے سے زیادہ بڑی چیز ہے ۔ ہمارا اللہ کو یاد کرنا ایک فریضہ ہے جبکہ اللہ کا ہمیں یاد کرنا ایک انعام ہے اور انعام کا تصور ہی حوصلہ بڑھاتا ہے ۔ نماز کے ذریعہ بندہ اللہ کو یاد کرتا ہے ۔ تو اللہ بھی اسے یاد کرتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے

فَاذْكُرُوْنِىْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِىْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ (152)


Quran Ayah Data not found….for Surah:2, Ayah:152 and Translation:93

Quran Surah:2 Ayah:152

تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔ چنانچہ یہاں فرمایا جارہاہے کہ اللہ کا تمہیں یاد کرنا بڑی چیز ہے ۔ لہٰذا تمہیں اس کا مستحق بننے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ کہ اگر اللہ نے یاد کرلیا اور نواز دیا تو پھر کوئی تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا۔ اگر اس تصور کے ساتھ اللہ کو یاد کیا جائے تو ذکر الٰہی کی حلاوت و تاثیر دوبالا ہو جاتی ہے۔ اللہ ہم سب کو اس سے آشنا کردے۔آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *