لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِىْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا (21)
Quran Ayah Data not found….for Surah:33, Ayah:21 and Translation:93
Quran Surah:33 Ayah:21
’’یقینا تم لوگوں کیلئے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے ہر اس شخص کیلئے جو اللہ اور یوم آخرت کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے‘‘۔
زبانی باتیں کم سمجھ میں آتی ہیں اگر اسے عملی جامہ پہنا دیا جائے تو زیادہ سمجھ میں آتی ہیں کیونکہ عمل کا روپ دھارنے میں بہت سے ابہام دور ہوجاتے ہیں اور یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ انہیں عملاً کیا جاسکتا ہے ۔ جیسے تیراکی کے اصول بتائے جائیں تو کم سمجھ میں آتا ہے لیکن عملاً تیراکی کرکے سکھایا جائے تو آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے۔ اسی لئے جو بات بھی کسی کے سامنے پیش کی جائے اس کا پریکٹیکل کرکے دکھایا جائے اور اس کا Modelنمونہ پیش کیا جائے تو بڑی آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے۔ اسی وجہ سے آج کل تعلیم میں بالخصوص سائنس کی تعلیم میں عملی تجربات کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ ایک شاعر نے اسی بات کو بڑے لطیف پیرائے میں بیان کیا ہے ۔ ؎
آدمی نہیں سنتا آدمی کی باتوں کو
پیکر عمل بن کر غیب کی صدا ہو جا
انسان کی اسی ضرورت اور کیفیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنے جو پیغمبر بھیجے ان کے اوپر صرف یہی ذمہ داری نہیں ڈالی کہ وہ اللہ کا پیغام پہنچادیں بلکہ اس کا بہترین نمونہ پیش کرنا بھی ان کے ذمہ تھا ۔ رسول پر ایمان لانے اور اسکی اطاعت و اتباع کا جو حکم دیا گیاہے وہ بھی اسی لئے تاکہ اس عملی مظاہرے اور بہترین نمونہ سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔
سورۃ الاحزاب کی درج بالا آیت میں رسول اللہﷺکی اسی حیثیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ آیت دراصل غزوہ احزاب کے پس منظر میں نازل ہوئی ہے۔ اس غزوہ کے موقع پر منافقوں نے مفاد پرستی اور عافیت کوشی کا مظاہرہ کیا تھا حالانکہ وہ مسلمان ہونے اور رسول کی اتباع کرنے کا دعویٰ کرتے تھے۔ ان سے کہا جارہا ہے کہ اس موقع سے رسول اﷲﷺ نے جو طرز عمل اپنایا۔ خند ق کھودی ،پیٹ پر پتھر باندھا دشمنوں کے مقابلے میں سینہ سپررہے۔ اتباع رسول کا تقاضا تھا کہ تم بھی ساتھ ساتھ رہتے اور ایسا ہی کرتے لیکن تم نے راہ فرار اختیار کی ۔ یہ تمہارے دعویٰ ایمان اور اتباع رسول کے سراسر خلاف ہے۔
لِمَنْ کَانَ یَرْجُوْ اﷲَ وَ الْیَوْمَ الْآخِرَ … سے دراصل ان کے اس طرزعمل کے سبب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ان کا یہ طرز عمل دراصل اس وجہ سے سامنے آیا کہ وہ سب کچھ دنیا میں ہی چاہتے ہیں اور اللہ سے غافل ہیں۔ اگر انہیں اللہ یاد ہوتا۔ آخرت کی جوابدہی کا احساس ہوتا اور آخرت میں ملنے والے اجر کی امید ہوتی تو وہ دنیا کے حقیر فائدے پر نہ جاتے اور موہوم خطرات سے نہ ڈرتے گویا دوسرے لفظوں میں یہ بتا دیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کی اتباع کا حق وہی ادا کر سکتا ہے جو اللہ کو زیادہ سے زیادہ یاد کرے گا اور آخرت کے اجر و ثواب پر نظر رکھے گا۔
یہاں اس حقیقت پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ گرچہ آیت مخصوص پس منظر میں نازل ہوئی ہے لیکن پیرا یہ بیان عام ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ صرف اسی معاملے میں نہیں بلکہ زندگی کے تمام معاملات میں رسول اللہﷺ کا نمونہ بہترین نمونہ ہے اور زندگی کے تمام معاملات میں اسی کے دئیے ہوئے نمونہ کو اپنایا جانا چاہئے۔ اس سلسلے میں آیت کے الفاظ ’’ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ ‘‘ اپنے اندر خاص معنویت رکھتے ہیں۔ سمجھنے کیلئے چند پہلوؤں کی نشاندھی کی جاتی ہے۔
(۱) شخصی حیثیت میں سب آپ کو سچا اور امانت دار مانتے تھے لیکن جب آپ نے پیغمبری کا اعلان کیا اور لوگوں سے اپنے آپ کو پیغمبر ماننے اور اپنی اتباع کا مطالبہ کیا تو وہی لوگ خلاف ہوگئے۔ گویا اصل نزاع رسول بننے پر شروع ہوا۔ حالانکہ رسول کی حیثیت ہی سے آپ کو ماننے اور آپ کے اسوہ کو اپنانے کا مطالبہ ہے۔ اس سلسلے میں کسی کو چھوٹ نہیں خواہ دوسرے انبیاء کے پیروکار ہوں یا سابقہ آسمانی کتب پر عمل کرنے والے۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہﷺ کی خدمت میں آیا اور اس نے کہا : ’’یا رسول اللہؐ ایک نصرانی شخص ہے جو انجیل کے مطابق عمل کرتا ہے اور ایک یہودی ہے جو تورات کے مطابق عمل کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول کو مانتا ہے مگر اس کے باوجود آپ کی شریعت پر عمل نہیں کرتا تو فرمائیے کہ ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے ‘‘؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس یہودی اور نصرانی تک میری نبوت کی اطلاع پہنچی اور اس کے بعد اس نے میری پیروی اختیار نہیں کی تو وہ دوزخ میں جائے گا‘‘۔(دارقطنی)
(۲) ’’ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ‘‘ کے الفاظ سے اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ بحیثیت رسول جو کچھ آپ نے کیا وہ ہمارے لئے اسوہ ہے۔ انسانی اور فطری تقاضوں کے تحت جو چیزیں وقوع پذیر ہوئیں وہ اس دائرے سے خارج ہیں۔ مثلاً آپﷺ عربی بولتے تھے یا آپﷺ نے عرب عورتوں سے شادیاں کیں تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آپﷺ کی طرح ہم بھی عربی بولیں یا عرب عورتوں سے شادی کریں تبھی گویا اسوہ رسول کی اتباع کا حق ادا کرنے والے کہلائیں گے ۔ کیونکہ یہ فطری تقاضوں کے تحت وقوع پذیر ہوا البتہ زبان کے استعمال کے معاملے میں اور عورتوں کے حقوق کی ادائیگی کے معاملہ میں رسول اللہﷺ کی پیروی ضروری ہے جو ہر جگہ اپنائی جاسکتی ہے۔
زیر بحث آیت کا لب لباب اس نظریہ کی بھی تردید کرتا ہے کہ انسان کی ہدایت و رہنمائی کیلئے قرآن کافی ہے کیونکہ اگر اسے مان لیا جائے تو پھر رسول اللہﷺ کے اسوہ کو اپنانے کا حکم بے معنی ہو جاتا ہے اور اس کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔