And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided…(3:103)

انسان کی پہلی ضرورت علم ہے

Posted by:

|

On:

|

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِىْ خَلَقَ (1) خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ (3) الَّذِىْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (5)


Quran Ayah Data not found….for Surah:96, Ayah:1 and Translation:93

Quran Surah:96 Ayah:1-5

ترجمہ:(اے نبیؐ) پڑھو اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ۱ جمے ہوئے خون کے لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی ۲ پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے ۳ جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا ۴ انسان کو وہ علم دیا جو وہ جانتا نہ تھا ۵
یہ سورہ علق کی ابتدائی پانچ آیات ہیں۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی ہے جو اس وقت نازل ہوئی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حراء میں اپنی مخصوص عبادت میں مصروف تھے۔ ان آیات کے اندر معانی کا دریا پوشیدہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کی بنیادی ضرورتیں صرف تین ہیں: روٹی، کپڑااور مکان لیکن ان سے بھی ضروری اور اہم بلکہ سب سے پہلی ضرورت ’’علم‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب سب سے پہلا انسان تخلیق کیا تو سب سے پہلے اسے ’’علم ‘‘سے آراستہ کیا تاکہ انسان سب سے پہلے اپنے خالق کو پہچانے۔ کیونکہ اگر یہ علم نہ ہو تو انسان شکل و صورت سے تو انسان ہوگا لیکن عملی میدان میں خود سر، غیر ذمہ دار اور مطلق العنان بن کر درندوں سے بد تر ہوگا اور دنیا کو اپنے شرو فساد سے بھر دے گا۔ اس لئے انسان کو سب سے پہلے یہ علم مہیا کرنا چاہئے کہ اس کائنات کا خالق کون ہے؟ اس کائنات کے ایک چھوٹے کیڑے سے لے کر بڑے بڑے ذی روح کی پرورش و نگہبانی کون کررہا ہے ؟ اتنی بڑی کائنات پر حکمرانی کس کی ہے ؟ رات ودن کے آنے جانے، چاند و سورج کے طلوع و غروب اور بارش و دھوپ کے نظم پر کس کا اختیار ہے ؟ کیا کوئی اس نظم میں مداخلت کی قدرت رکھتا ہے؟ پھر انسان خود اپنی تخلیق پر غور کرے۔ پھر کس نے ماں کے پیٹ میں درجہ بدرجہ نشو ونما دے کر اسے اس حد کو پہنچایا کہ وہ ایک زندہ وسلامت بچے کی شکل میں پیدا ہو؟ پھر کون ہے جس نے رحم مادر میں ہی اس کے جسم کی ساخت اور اس کی جسمانی و ذہنی صلاحیتوں کا تناسب قائم کیا؟ پھر کون ہے جو پیدائش سے لے کر موت تک اس کی مسلسل نگہبانی کرتا رہتا ہے؟ کس نے اس کے ماں باپ کے دل میں اس کے لئے الفت و محبت ڈال دی کہ ہر طرح کی تکالیف و مصائب برداشت کرکے اس کی وہ پرورش کرتے ہیں؟ کون ہے جو اسے ہر طرح کے حادثات اور آفات و مصائب سے بچاتا ہے ، بیماریوں سے نجات دیتا ہے؟ انسان کو پیدا کرکے اس دنیا میں زندہ و باقی رہنے کے لئے اس قدر اسباب فراہم کرتا ہے جن کا شمار انسان نہیں کرسکتا بلکہ اکثر کا اسے شعور تک نہیں ہوتا۔ کجا کہ وہ خود ان اسباب و وسائل کے پیدا کرنے پر قادر ہو ۔ کیا یہ سب ایک رب کی تدبیر و نگرانی اور نگہبانی کے بغیر ہورہا ہے ؟ پھر فرمایا گیا کہ وہ خالق بے انتہا کرم والا ہے اس نے نہ صرف تمہاری تخلیق کی ہے اور اسباب زندگی مہیا کئے بلکہ علم سے آراستہ کیا اور لکھنے پڑھنے کا فن بھی سکھایا جسے اختیار کرکے انسان امن و چین اور سکون و اطمینان سے زندگی گذار سکتا ہے اور دنیا کو جنت نشاں بناسکتا ہے۔ اس علم سے منہ موڑ کر دنیا کو جہنم زار بھی بنا سکتا ہے۔ اس علم کے پھیلاؤ کے لئے قلم کا استعمال اور لکھنے کا فن بھی سکھایا تاکہ بڑے پیمانے پر اس علم کی نشرو اشاعت ہو اور انسانیت خسران و بربادی سے دوچار نہ ہو،یہ علم نہ انسان کو حاصل تھا نہ علوم کے حاصل کرنے پر وہ از خود قادر ہے بلکہ اسے جو کچھ علم حاصل ہوتا ہے وہ اسی خالق کائنات کے دینے سے حاصل ہوتا ہے۔ وہی انسانیت کی ضروریات کے لئے جس علم کے چاہتا ہے دروازے کھولتا ہے اور جن لوگوں کو چاہتا ہے آراستہ کردیتا ہے ۔غرض یہ کہ اس کی عطا و بخشش کے بغیر کوئی کچھ حاصل نہیں کرسکتا۔ انسان جن جن چیزوں کو اپنی دریافت اور اکتشافات تصور کرتا ہے درحقیقت وہ پہلے سے اس کے علم میں نہ تھیں اللہ تعالیٰ ہی نے جب چاہا ان چیزوں کا علم انسان کو غیر محسوس طریقے پر دیدیا ۔پس اللہ کے اس کرم کا تقاضا ہے کہ جو علم و فن اس نے عطا کیا ہے انسان سیکھے اور اپنے رب کو پہچانے۔ اگر انسان نے اپنے رب کے عطا کردہ علوم سے غفلت برتی تو اس کی انسانیت ختم ہو جائیگی اورانسان درندوں سے بد تر ہوجائے گا۔ نیز دنیا بدامنی و فساد کا گہوارہ بن جائے گی۔ آج پوری انسانیت اس علم کی محتاج ہے تاکہ اس سے آشنا ہوکر تباہی و بربادی سے بچ جائے۔ اس علم کے حاملین کا فرض منصبی ہے کہ اس علم سے انسانیت کو روشناس کرائیں ورنہ وہ خود اس جہنم زار دنیا کا ایندھن بن جائیں گے اور اللہ کی جناب میں بھی سخت مواخذہ ہوگا کہ دنیا جب تباہی کے گڑھے کی طرف جارہی تھی تو تم کیا کر رہے تھے؟qq

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *