عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپﷺ کھجور کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے جس پر کوئی بچھونا نہیں تھا چٹائی کی بناوٹ کا نشان آپ ﷺ کے جسم مبارک پر پڑ گیا تھا اور سرہانے چمڑے کا تکیہ تھا جس میں کھجور کا چھلکا بھرا ہوا تھا۔ یہ حال دیکھ کر میں نے عرض کیا یارسول اللہؐ اللہ سے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی امت پر وسعت و فراخی عطا فرمائے فارس و روم پر بڑی کشادگی کردی گئی ہے حالانکہ وہ لوگ اللہ کی بندگی نہیں کرتے ، یہ سن کر آپﷺ نے فرمایا عمر!تم کس خیال میںہو؟ ان کے لئے صرف دنیا ہی دنیا ہے اور ہمارے لئے آخرت ہے ۔(متفق علیہ)
بالکل اسی مضمون کی حدیث حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مسند احمد، جامع ترمذی اور ابن ماجہ میں مروی ہے جس میں عبداللہ بن مسعودؓ نے حضور ﷺ سے فرمایا کہ آپ حکم دیتے تو میں نرم بستر بچھا دیتا یہ سن کر حضورﷺ نے فرمایا : ’’مَالِیَ وَ لِلدُّنْیَا وَ مَا اَنا وَ الدُّنْیَا اِلاَّکَرَاکِبٍ اِسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجْرَۃٍ ثُمَّ رَاَحَ وَ تَرَکَھَا‘‘ ’’یعنی مجھے دنیا سے کیا غرض ہے میری اور دنیا کی مثال ایک جانے والے سوار مسافر کی طرح ہے جو کسی درخت کے نیچے سایہ لینے کے لئے اتر پڑا ہو پھر وہاں سے چل پڑا اور سایہ دار درخت کو اسی جگہ چھوڑ گیا‘‘۔ یہ ہے اُس عظیم شخصیت رحمت عالم کی سادہ زندگی کی ایک معمولی جھلک جس نے بادشاہی میں فقیری کی اور جس کااسوۂ حسنہ ہمارے لئے نمونہ ہے خوردونوش اور رہن سہن غرض کے جملہ معاملات میں آپ ﷺ سادگی و بے تکلفی کو پسند فرماتے تھے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’سادگی ایمان کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے‘‘۔ (ابوداؤد) لیکن سادگی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ زندگی کے کسی مخصوص گوشے میں سادگی اختیار کی جائے جس طرح اکثر نیتا ولیڈر کپڑے تو کھادی کھدّر کے پہنتے ہیں مگر زندگی کے دوسرے تمام گوشوں میں اسراف و فضول خرچی کا اعلیٰ نمونہ ہوتے ہیں اللہ اور رسول ﷺ کی مطلوبہ سادگی زندگی کے جملہ معاملات و گوشوں میں ہونی چاہئے اور آپﷺ نے ہمارے لئے اپنی پوری زندگی کا عملی نمونہ چھوڑا ہے۔
سادگی کی دو قسمیں ہیں ایک اضطراری، دوسرے اختیاری۔ اضطراری سادگی یہ ہے کہ آدمی کو مال و دولت کہیں سے ملے ہی نہیں اور وہ سادہ زندگی گزارنے پر مجبور ہو اس طرح کی اضطراری سادگی میں اگر صبر و ثبات ہو تو اس کی فضیلت میں بھی بے شمار صحیح احادیث موجود ہیں اور اختیاری سادگی یہ ہے کہ مختلف حلال ذرائع سے مال و دولت تو بہت ملے لیکن آدمی اللہ کے دین کی نصرت و حمایت اور اللہ کے حاجت مند بندگان پر تقسیم کرے اور خود سادہ زندگی کو ترجیح دے۔ یہی وہ سادگی ہے جسے نبیﷺ نے اپنے اور اپنے اہل و عیال کیلئے پسند فرمایا تھا۔آپﷺ کے بعد ابو بکرؓ و عمرؓ کے علاوہ بے شمار صحابہؓ و صحابیاتؓ نے پسند کیا خلیفہ وقت اور گورنر ہوتے ہوئے بھی بالکل معمولی قیام و طعام اور لباس اختیار کیا اور فاقہ کشوں کی فہرست جب تیار کی گئی تو گورنر سعید بن عامرؓ کا پہلا نام تھا۔
سادگی بخل و کنجوسی کا نام بھی نہیں کیونکہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایاہے : ’’فضول خرچ اور کنجوس دونوں شیطان کے بھائی ہیں‘‘۔ ایک صحابی رسول ﷺ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت میرے جسم پر نہایت ہی گھٹیا و کمتر لباس تھا آپﷺ نے دریافت کیا کہ کیا تمہارے پاس مال و دولت ہے ؟ میں نے جواب دیا جی ہاں پھر فرمایا کس قسم کا مال ہے ؟ میں نے کہا اللہ نے ہر قسم کا مال دے رکھا ہے ، اونٹ ، گائیں، بکریاں، گھوڑے غلام بھی ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’جب اللہ نے تمہیں مال و دولت سے نواز رکھا ہے تو اس کے فضل و احسان کا اثر تمہارے جسم پر بھی ظاہر ہونا چاہئے‘‘۔مطلب بالکل واضح ہے کہ جب اللہ مال و دولت سے نوازے تو ناداروں اور فقیروں کا بھیس اور صورت وحلیہ بنائے رکھنا یہ تو گویا اللہ کی ناشکری ہے ۔ دراصل دینداری کا انحصار نہ پھٹے ، پرانے پیوند لگے کپڑوں پر ہے اور نہ گٹھیا و کمتر کھانے و رہائش ہے اور نہ لباس فاخرہ یا اعلیٰ درجہ کے قیام و طعام پر ہے۔ دینداری کا دار ومدار آدمی کی نیت اور فکر صحیح پر ہے صحیح بات یہ ہے کہ آدمی ہر معاملہ میں اپنی وسعت و حیثیت کا لحاظ کرتے ہوئے اعتدال و تواز ن کی روش پر قائم رہے۔ نہ شکستہ حالی کو صورت سوال بننے دے اور نہ زرق برق لباس اور عمدہ قیام و طعام کو فخرو غرور کا ذریعہ بننے دے جس کا لازمی نتیجہ لوازمات زندگی میں الجھ کر فرض منصبی سے غفلت اور آخرت فراموشی ہے ۔
سادگی اختیار کرنے والے کی ذات میں بے شمار اخلاق حسنہ نشو ونما پاتے ہیں مثلاً صبر و شکر ، کفایت شعاری وخاکساری ، زہد و تقویٰ ، بے تکلفی بے ساختگی ، قناعت پسندی و استغنا اور بے نیازی ، بندگان خدا سے ہمدردی و غمخواری اللہ کے دین کو غالب کرنے کیلئے اپنا مال صرف کرنے کی تڑپ و لگن ۔
ایک آدمی جب سادگی ترک کردیتا ہے تو لازماً لوازمات زندگی کے جال میں پھنس جاتا ہے اور متقی سے متقی انسان کے اندر بھی بے شمار اخلاق رذیلہ پیدا ہوجانے کا قوی امکان و احتمال ابھر آتا ہے۔ اس لئے بھی سادگی میں عافیت ہے کیونکہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔