And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided…(3:103)

تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو

Posted by:

|

On:

|

’’عَنْ اَنَسٍ ابْنِ مَالِکٍؓ یَقُوْلُ مَرُّوْ ا بِجَنَازَۃٍ فَاَثْنَوْا عَلَیْھَا خَیْراً فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ وَجَبَتْ ثُمَّ مَرُّ وْا بِأُخْرَیٰ فَاثْنَوْا عَلَیْھَا شَرًّا فَقَالَ النَّبِيﷺ وَجَبَتْ فَقَالَ عُمَرُ ابْنُ الْخَطَّابِ مَا وَجَبَتْ قَالَ ھٰذَا اَثْنَیْتُمْ عَلَیْہِ خَیْراً فَوَجَبَتْ لَہٗ الْجَنَّۃُ وَ ھٰذَا اَثْنَیْتُمْ عَلَیْہِ شَرًّ ا فَوَجَبَتْ لَہٗ النَّارُ اَنْتُمْ شُھَدائُ اﷲِ فِیْ الْاَرْضِ‘‘(بخاری کتاب الجنائز باب ثَنَائُ النَّاسِ عَلَی الْمَیِّتِ)


ترجمہ: ’’انس بن مالک ؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں لوگ ایک جنازے پر سے گزرے تو اس کی تعریف کی۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: واجب ہوگئی ۔ پھرلوگ ایک دوسرے جنازے پر سے گزرے تو اس کی برائی کی ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: واجب ہوگئی ۔ (دونوں بار ایک ہی جواب سن کر ) عمربن خطابؓ نے نبی کریم ؐ سے پوچھا : کیا چیز واجب ہوگئی تو آپ ؐ نے فرمایا: پہلے شخص کی تم نے تعریف کی تو اس کیلئے جنت واجب ہوگئی اور دوسرے کی تم نے برائی کی تو اس کیلئے دوزخ واجب ہوگئی ۔ تم لوگ زمین میں اللہ کے گواہ ہو‘‘۔

تشریح: (۱) مردے کی خوبی اور خامی بیان کی جاسکتی ہے بالخصوص ضرورت متقاضی ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں البتہ بلا ضرورت خامیوں کا بیان مردے کے رشتہ داروں اور چاہنے والوں کو گراں گزرتا ہے اس لئے اس سے بچنا چاہئے اور اسی لئے حدیث میں ذکر خیر کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور خامیوں کے بیان سے روکا گیا ہے ۔ جیسا کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’اپنے مردوں کی خوبیاں بیان کرو اور ان کی برائیوں سے زبان کو بند رکھا کرو‘‘ (ابوداؤد)
(۲) ساتھ رہنے والوں کی رائے کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ اگر وہ کسی کے بارے میں گواہی دیں کہ اچھا ہے تو اس کی رائے کو تسلیم کیا جانا چاہئے اور اگر وہ گواہی دیں کہ برا آدمی ہے تو اس کا لحاظ کیا جانا چاہئے ۔ ایسا اس لئے ہے کہ جو ہر وقت کسی کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے وہ اس کے چال چلن ، برتاؤاور خوبیوں و خامیوں سے زیادہ واقف ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک موقع سے جب ایک آدمی نے عمرؓ کے سامنے کسی کی تعریف کی تو انہوں نے اس کی رائے کے ٹھوس یا کمزور ہونے کا اندازہ لگانے کیلئے اس آدمی سے دو سوال کئے تھے ایک یہ کہ کیا تم نے کبھی اس کے ساتھ سفر کیا ہے ؟ دوسرے کیا کبھی تم نے اس سے لین دین کا کوئی معاملہ کیاہے ؟ سفر اور لین دین میں آدمی آسانی سے پرکھا جاتا ہے۔ اسی لئے عمرؓ نے ان سے یہ سوال کیا تھا ۔اگر اس طرح کے مواقع پرکوئی کھرا اترا اور صحیح نکلا تو یقینا وہ آدمی اچھا ہے اور اس تجربہ کی بنیاد پر رائے دینے والے کی رائے بھی معتبر اور صحیح مانی جاسکتی ہے۔
اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ سماج اور معاشرے سے کٹ کر نہیں بلکہ جڑ کر رہنا چاہئے ۔ جب تک انسان سماجی اور معاشرتی زندگی نہیں گزارتا اس کی شخصیت کی خوبی یا خامی کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اور نہ اس کے بغیر کسی کی خوبی یا خامی نمایاں ہوسکتی ہیں۔
(۳) جب کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو بلا جھجک وضاحت طلب کرنی چاہئے ۔ جیسا کہ عمر بن خطابؓ نے کیا کہ دو مختلف صورتوں میں ایک جیسا جواب سنا اور اشکال پیدا ہوا تو فوراً وضاحت طلب کی کیونکہ کسی بھی گفتگو کا اصل حاصل وہ بات سمجھنا ہوتا ہے جس کی خاطر گفتگو ہورہی ہے اگر وہی بات سمجھ میں نہ آئی تو گفتگو لاحاصل ہے اس لئے اصلاً اس کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس میں کسی شرم و وحیا اور ادب و احترام کو آڑے نہیں آنے دینا چاہئے ۔ عموماً لوگ اور بالخصوص طلبہ وضاحت طلب کرنے سے گھبراتے ہیں جس کی وجہ سے معلومات ناقص اور ادھوری رہ جاتی ہیں اگر سوال کرلیں تو مکمل معلومات حاصل ہو جائے گی۔ اسی لئے کہا جاتا ہے ’’اَلسُّؤَالُ نِصْفُ الْعِلْمِ‘‘ پوچھنا آدھا علم ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *