And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided…(3:103)

شخصیت سے زیادہ متبرک اس کا مشن ہوتا ہے

Posted by:

|

On:

|

وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اَفَا۟ئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَيْـــًٔا وَسَيَجْزِى اللّٰهُ الشّٰكِرِيْنَ (144)


Quran Ayah Data not found….for Surah:3, Ayah:144 and Translation:93

Quran Surah:3 Ayah:144

’’محمدؐ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں۔ اُن سے پہلے اور بھی رسول گذر چکے ہیں۔ پھر کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل کردئیے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے۔ یادرکھو! جو الٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا۔ البتہ جو اللہ کے شکر گذار بندے بن کر رہیں گے انہیں وہ اس کی جزا دے گا‘‘۔
۳ھ ؁ میں غزوہ احد کا معرکہ پیش آیا ۔ کفار مکہ ابو سفیان کی قیادت میں تین ہزار مسلح فوج کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوئے۔ مکہ والے بدر کے مقتولین کا بدلہ لینے کے لئے باؤلے ہو رہے تھے۔ فوجیوں کو جوش دلانے اور جنگ کی آگ کو بھڑکانے کے لئے معزز خواتین کا ایک جتھا ساتھ تھا جو اشعار پڑھ کر جوش انتقام کو بھڑ کار ہی تھیں۔
محمدؐ کے ساتھ صرف سات سو صحابہ تھے جن کے ساتھ آلات حرب اور زرہیں بھی زیادہ نہیں تھیں۔ محمدؐ نے پہاڑ کو پشت پر رکھ کر فوج کی صف بندی کی ۔ درّہ پر پچاس تیر انداز صحابہ کو متعین کردیا تاکہ پشت سے حملہ کو روکا جاسکے۔ تیر اندازوں کو فتح شکست ہر صورت میں اپنے محاذ پر جمے رہنے کی سخت تاکید تھی۔
جنگ کے اول مرحلے میں مسلمان غالب آگئے کافروں میں بھگدڑ مچ گئی اس موقع پر مسلمانوں نے مال غنیمت لوٹنا شروع کردیا۔ درّہ پر متعین صحابہ کی اکثریث بھی اس عارضی فتح کا فائدہ اٹھا کر مال غنیمت جمع کرنے لگی۔ خالد بن ولید اس وقت کافروں کی فوج کے ایک حصہ کے سردار تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کی اس غفلت سے پورا فائدہ اٹھایا اور پہاڑی کا چکر کاٹ کر درّہ کے راستے پشت سے حملہ کردیا۔ درّہ کے محاذ پر باقی ماندہ چند صحابہ اس لشکر کو نہ روک سکے اورسب شہید ہوگئے۔ یہ حملہ اتنا اچانک اور غیر متوقع تھا کہ مسلمان بوکھلا گئے ، افراتفری کا شکار ہوگئے ۔ وہ پراگندہ اور منتشر ہو گئے جن کو جدھر راستہ ملا ادھر نکل گئے ۔ کافر اور مسلمان اس طرح گڈ مڈ ہوگئے کہ ایک دوسرے کی پہچان نہ رہی ادھر نبیؐ کافروں کے درمیان گھر گئے ۔ گنتی کے چند جانثار آپ کے اطراف تھے۔ عام مسلمانوں سے آپ کی شخصیت اوجھل ہوگئی تھی ۔ محمدؐ کی شکل سے ملتی جلتی شکل مصعب بن عمیر ؓ کی تھی ان کے شہید ہوتے ہی کافروں نے افواہ اڑادی کہ نعوذ باﷲ نبیؐ شہید کردئے گئے ۔ اس ہمت شکن خبر کو سن کر کئی صحابہ کا حوصلہ جاتا رہا انہوں نے تلوار پھینک دی اور مایوسی میں آپنے آپ کو حالات کے حوالہ کردیا۔مگر یہ صورت حال زیادہ دیر تک قائم نہ رہی۔ کعب بن مالکؓ نے آپؐ کو دیکھ کر نعرہ بلند کیا مسلمانوں محمدؐ یہاں ہیں۔ پھر مسلمان یکجا ہوئے اور اس جوش سے لڑے کہ کافروں کے بادل چھٹ گئے ۔ محمدؐ کو زخمی حالت میں پہاڑ پر لے گئے اور کفار ناکام و نامراد مکہ کو واپس ہوگئے ۔
کسی بھی تحریک کا بانی، قائد اور رہبر اپنے پیروکاروں کے درمیان بڑی اہمیت رکھتا ہے اپنے وقت میں وہ خود تحریک ہوتاہے۔ اس کے اقوال اور اس کے اعمال تحریک کے مقاصد ، قواعد و ضوابط نیز پالیسی اور پروگرام بن جاتے ہیں۔ اس کا ماننے والا ہر فرد اس پر جان چھڑکتا ہے اور اس کے اشارہ چشم و ابرو پر فدا ہونا اپنی سعادت سمجھتا ہے۔
رسول ؐ کی ذات عام قائدوں اور لیڈروں سے بہت بلند ہوتی ہے۔ وہ خدائی ہدایت اور خدائی مدد کے ساتھ آتا ہے ۔ اس لئے اس کے متبعین پروانوں کی طرح اس طرح نچھاور ہونا چاہتے ہیںاور جہاں جہاں شمع جاتی ہے پروانے ادھر ہی محو پرواز ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے میں اگر شمع بجھ جائے تو پروانوں کا تتر بتر ہو جانا ایک قدرتی بات ہے۔
لیکن انبیاء کرام مبعوث من اللہ ہوتے ہیں ۔ وہ لوگوں کو اللہ کا بندہ بنانے، اللہ کا راستہ بتانے اور اس راستے پر چل کر دکھانے کے لئے آتے ہیں۔ ایک خاص مدت تک ان کی رہنمائی براہ راست لوگوں کو حاصل ہوتی ہے ۔ پھر ان کی لائی کتاب اور ان کا طرز عمل راہبر بن جاتا ہے اور لوگ نبی کے بتائے ہوئے طریقے پر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور اللہ کے دین پر چلتے ہیں۔
نبی کی زندگی میں ان کی ذات سے والہانہ محبت، دل میں ان کی بے پناہ عقیدت اور ان کے احکام کی بجاآوری کے لئے سعی و جہد اجزائے ایمانی ہیں نبی اللہ کا مکمل بندہ ہوتا ہے اور ان کی پیروی ہی انسان کو خدا کا اچھا بندہ بنا سکتی ہے ۔ نبی کے بعد یہی لگاؤ ایک مومن کو اس کی تعلیمات سے ہوتا ہے کیونکہ نبی کی بعثت کا مقصد انسانوں کا اللہ سے رشتہ جوڑنا ہے اور اس کا بندہ بنانا ہے۔
محمد رسول اللہ ؐ کی قیادت میں صحابہ کرام کا گروہ انتہائی لگن جوش اور کامیابی کے مکمل یقین کے ساتھ اسلام کے غلبہ کے لئے کوشاں تھا۔ ان کو ظاہر اسباب پر نہیں بلکہ نبی کے ذریعہ غیبی امداد پر مکمل بھروسہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ دوران جنگ نبیؐ کی شہادت کی خبر سن کر ان پر حزن و ملال کے ساتھ یاس و پست ہمتی نے غلبہ پالیا۔ ان کی اس کیفیت پر اللہ نے تنبیہ فرمائی کہ دنیا میں انبیاء آتے جاتے رہے ہیں۔ اور محمدؐ بھی ایک رسول ہیں اُن کے جانے سے نہ اللہ کی عبادت ختم ہوگی نہ اللہ کے دین پر لوگ چلنا چھوڑیں گے اللہ کی ذات حی و قیوم ہے اور اس کا دین زندہ و جاوید ہے اور دنیا کے ہر انسان کا مقصد وجود خدا کی بندگی ہے ۔ نبی کی ذات سے زیادہ باصلاحیت ہمہ صفات اور مکمل کوئی دوسرا انسان نہیں ہوسکتا۔ جب دین پر عمل اور دین کے قیام کی جدوجہد انبیاء کے بغیر بھی جاری رہ سکتی ہے اور رہی ہے تو پھر عام مصلحین اور قائدین کس شمار میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک سے بڑھ کر ایک رہنما اور قائد پیدا کئے ہیں لیکن اللہ کے دین کا قیام کسی شخصیت پر منحصر نہیں رہا ہے۔ بلکہ وہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا البتہ ہر فرد مومن کو یہ غور کرنا ہے کہ اس میں کتنا حصہ بٹا سکتا ہوں۔
۱۳ھ ؁ میں جب محمدؐ کا انتقال ہوا تو مسلمانوں میں کھلبلی مچ گئی ۔ ان کا ملجا و ماویٰ اور مرجع نہ رہا ۔ ان کی مرکزیت کا دھاگہ ٹوٹ گیا۔ عمر فاروقؓ پراس جانکاہ صدمہ کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ وہ مسجد نبوی کے دروازے پر ننگی تلوار لے کر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے’’جو کہے گا کہ محمدؐ وفات پاگئے میں اس کی گردن اڑادوں گا ‘‘ بھلا اس اعلان کے بعد کس کی مجال تھی کہ وہ حقیقت ظاہر کرسکے۔ لیکن سیدنا ابو بکرؓ نے اس وقت جو الفاظ کہے وہ ایک مرد مومن کی آنکھ کھول دینے کے لئے کافی تھے۔ آپ نے فرمایا ’’کان کھول کر سن لو جو محمدؐ کی عبادت کرتا تھا تو محمدؐ انتقال کرچکے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھاتو اللہ حی و قیوم ہے پھر ابو بکرؓ نے انہیں آیتوں کی تلاوت کی

وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اَفَا۟ئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَيْـــًٔا وَسَيَجْزِى اللّٰهُ الشّٰكِرِيْنَ (144)


Quran Ayah Data not found….for Surah:3, Ayah:144 and Translation:93

Quran Surah:3 Ayah:144

صحابہ کرام عرض کرتے ہیں ایسا لگا کہ یہ آیتیں اسی وقت نازل ہوئی ہیں۔ عمر فاروقؓ صدمہ کے فریب سے نکلے حقیقت کو دل سے تسلیم کیا اور ابو بکرؓ کے ساتھ مسلمانوں کو انتشار سے بچانے کے لئے چل نکلے۔
اللہ تعالیٰ اپنے دین کی بقاء قیام اور اشاعت کے لئے اپنے بندوں میں سے کچھ لوگوں کو چن لیتے ہیں۔ انہیں اعلیٰ صلاحیتوں سے نوازتے ہیں۔ وہ اللہ کے بندے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پر لوگوں میں ممتاز ہوتے ہیں۔ ان کی فکر و نظر میں گہرائی اور گیرائی ہوتی ہے۔ ان کی تقریر و تحریر میں جادو کا اثر ہوتا ہے۔ وہ ایک مشن اور پلان رکھتے ہیں۔صالح افراد ان کے معاون و ہمسفر بن جاتے ہیں۔ ان کے جاری کردہ مشن کو اپنے خونِ جگر سے سینچتے ہیں۔ اپنے رہبر سے محبت و عقیدت رکھتے ہیں۔ لیکن اپنے قائد اور لیڈر کی رحلت یا شہادت انہیں اپنے مشن سے دور نہیں کردیتی۔ بلکہ اپنے رہنما کی سچی محبت یہی ہے کہ اس کے مشن کو زندہ رکھیں اور اپنے سربراہ کے نقش قدم پر چل کر اس مقصد کی تکمیل کریں جس کو ان کے مرشد نے جاری و ساری کیا تھا۔ ان آیات سے رہتی دنیا تک انسانوں کو یہ پیغام ملتا رہے گا کہ شخصیت سے زیادہ متبرک اس کا مشن ہوتا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *