And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided…(3:103)

صلہ رحمی

Posted by:

|

On:

|

عَنْ أبِیْ ھُرَیْرَۃَ ؓاَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ قَالَ ’’مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاﷲِ وَ الْیَوْمِ الآخِرِ فَلِیْکْرِمْ ضَیْفَہٗ وَمَنْ کَانَ یُوْمِنُ بِاﷲِ وَ الیَوْمِ الآخِرِفَلْیَصِلْ رَحِمِہٗ، وَ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاﷲِ وَ الْیَوْمِ الآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْراً أوْلِیَصْمُتْ‘‘(متفق علیہ)


ترجمہ : حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے ، جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ صلہ رحمی کرے ، اور جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ بھلائی کی بات کرے یا پھر خاموش رہے ۔ (بخاری و مسلم )

صلہ رحمی کا مطلب ہے کہ رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، ان کے حقوق ادا کرنا، ہر حال میں ان سے تعلقات استوار رکھنا اس کے برعکس رشتوں کو کاٹنا ، رشتے داروں کے ساتھ برا سلوک کرنا قطع رحمی کہلاتا ہے۔
قرآن مجید نے صلہ رحمی کو انسانیت، روحانیت اور دیانت داری کی ایک بنیادی اینٹ قرار دیا ہے اور احادیث رسول نے اسے ایمان کا لازمی حصہ بتایا ہے۔ رشتے داروں میں دادھیال اور ننھیال دونوں طرح کے رشتے دار شامل ہیں دونوں کو ہر حال میں عزت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے ۔ حقوق العباد میں حقوقِ قرابت (رشتے داری ) کی اہمیت بہت زیادہ ہے رشتے داروں کے حقوق کی ادائیگی کو احسان نہیں بلکہ فرض اور حق بتایا گیاہے۔
اللہ نے فرمایا: ’’واٰتِ ذا القُرْبیٰ حَقَّہٗ‘‘ (الروم :۳۸۰)تو قرابت دار کا اس کا حق دیدے مال و دولت کی محبت اور ذاتی ضرورت اور خواہش کے باوجود صرف خدا کی مرضی و خوشنودی کے لئے خود تکلیف اٹھا کر اپنے قرابت داروں کی امداد او رحاجت روائی اصل نیکی ہے۔
صلہ رحمی سے عمر اور روزی میں اضافہ ہوتا ہے ، گھر میں خیر و برکت کانزول ہوتا ہے ، ہرسو، امن و امان کا دور دورہ ہوتا ہے ، معاشرہ و سماج میں اخوت ، بھائی چارگی کا ماحول پروان چڑھتا ہے حضرت انس ؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کی روزی میں فراخی اور اس کی عمر میں اضافہ ہو تو اسے چاہئے کہ وہ صلہ رحمی کرے (بخاری و مسلم)
صلہ رحمی کے آخرت میں جو اجر و ثواب ملنے والا ہے اس کے علاوہ مذکورہ بالا یہ دو بڑے فائدے ہیں جو انسان کو حاصل ہونے والے ہیں۔ روزی میں اضافے سے مراد یا تو حقیقت میں مقدارِ رزق میں زیادتی ہے جو اللہ کی طرف سے عطا کی جاتی ہے یا تو اس سے مراد صلہ رحمی کرنے والے کے رزق میں برکت ہے۔ اسی طرح سے عمر میں زیادتی کا مسئلہ ہے یا تو حقیقت میں اس کی مقدر کی ہوئی عمر میں اضافہ کردیا جاتا ہے یا عمر میں برکت ہوتی ہے یعنی اس کی زندگی ہر چہار جانب سے فوائد اور خیر وبرکت سے لبریز ہوتی ہے ، اس کا فیض عام ہوتا ہے جس سے اس کی دنیوی زندگی کامیاب ہوتی ہے لوگوں کی نگاہوں میں اس کی قدرو منزلت بڑھ جاتی ہے لوگ اس کے حق میں دعائے خیر کرتے ہیں۔ صلہ رحمی جنت میں دخول کا ذریعہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے لوگو !آپس میں سلام پھیلاؤ ، اور کھانا کھلاؤ اور جب لوگ سوئے ہوئے ہوں اس وقت نماز پڑھو، صلہ رحمی کرو جب یہ کام کرو گے تو جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے۔
رشتے داروں کو صدقہ دینے سے اس کا ثواب دوگنا ہو جاتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غیر رشتہ دار مسکین کو صدقہ دینے سے ایک صدقہ کا ثواب ہے اور غریب رشتہ دار کو دینے سے دوگنا ثواب ہوتا ہے (احمد ، ترمذی)
ضرورت مند رشتے داروں پر صدقہ کرنا غلام آزاد کرنے سے بھی زیادہ باعث ثواب ہے ۔

ام المؤمنین حضرت میمونہ بنت حارث ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک لونڈی آزاد کردی اور نبی ﷺ سے اس کی اجازت نہیں لی جس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں تشریف لائے تو انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول کیا آپ نے محسوس کیا کہ میں نے اپنی لونڈی آزاد کردی ہے ؟ آپ نے فرمایا کیا واقعی تم نے ایسا کیا ہے ؟انہوں نے کہا ہاں آپؐ نے ارشاد فرمایا اگر تم وہ اپنے ماموؤں کو دیدیتیں تو تمہارے لئے زیادہ اجر کا باعث ہوتا (بخاری و مسلم )
حدیث پاک سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ اپنی ملکیت والی چیز میں عورت اپنے خاوند کی مرضی کے بغیر تصرف کرسکتی ہے جب کہ شوہر کے مال میں اسے تصرف کا کوئی حق نہیں، دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ حاجت مند رشتے داروں کو صدقہ دینے میں صدقے کے ثواب کے ساتھ ساتھ صلہ رحمی کا بھی ثواب ملے گا ۔ اسی طرح سے اگر کوئی اپنے غیر مسلم والدین یا رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہے تو یہ بھی اسلام کو مطلوب ہے اور ثواب کا باعث بھی نیز انہیں اسلام کی طرف مائل کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہے ۔
حضرت اسماء بنت ابو بکرؓ بیان کرتی ہیں کہ میری ماں قتیلہ بنت عبدالعزی جو ابھی مشرکہ تھیں وہ صلح حدیبہ کے معاہدہ کے درمیان میرے پاس آئیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری والدہ میرے پاس آئی ہیںاور مجھ سے حسن سلوک کی خواہش مند ہیں کیا میں (ان کی خواہش کے مطابق) اپنی والدہ سے صلہ رحمی کروں آپؐ نے فرمایا کہ تم اپنی والدہ سے صلہ رحمی کرو (بخاری و مسلم )
صلہ رحمی (یعنی رشتہ داروں سے بہتر سلوک
کرنا) بغیر کسی بدلے کے جذبے کے ساتھ ہونا چاہئے اگر بدلے میں صلہ رحمی کیا جائے تو اس کو صلہ رحمی نہیں کہتے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا راوی عبداللہ بن عمروؓ بن عاص ہیں کہ وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں جو کسی رشتے دار کے ساتھ احسان کے بدلے میں احسان کرتا ہے بلکہ اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس سے قطع رحمی بدسلوکی کی جائے تو وہ صلہ رحمی حسن سلوک سے پیش آئے (بخاری )
جو رشتے دار آپ سے ادب و احترام سے پیش آئیں اور آپ کے ساتھ اچھا سلوک کریں تو آپ بھی بدلے میں اس کے ساتھ بہتر سلوک کریں گے لیکن یہ صلہ رحمی نہیں ہے احسان کے بدلہ احسان ہے اس کے برعکس آپ کا ایک قریبی رشتہ دار بد خلق ہے آپ کے ساتھ بد سلوکی کرتا ہے آپ سے تعلق توڑنے پر تلا رہتا ہے (جیسا کہ آج کل یہ وبا عام ہے ) لیکن آپ صبر و تحمل ، عفو و درگزر سے کام لیتے ہیں بد سلوکی کا جواب حسن سلوک سے دیتے ہیں تعلق برقرار رکھنے کیلئے
کوشاں رہتے ہیں تویہی ہے اصل صلہ رحمی جس کا اسلام تقاضا کرتا ہے ، دو رشتے داروں کے درمیان پائی جانیوالی جھوٹی اَنا کو شریعت کے مطالبات پر قربان کردینا بڑی عزیمت ہے اور کمالِ ایمان بھی ، ورنہ آپسی مسکراہٹوں میں کوئی کمال نہیں، صلہ رحمی اپنے جوڑنے والے کیلئے دعائے خیر کرتی رہتی ہے۔
حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’رِحم(رشتے داری ) عرش سے لٹکتی ہوئی ہے او رکہتی ہے جو مجھے ملائے اللہ اسے ملائے اور جو مجھے کاٹے اللہ اسے کاٹے ‘‘۔ (بخاری و مسلم )
رشتے داری کا کاٹنے والا اسے توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہوسکتا حضرت ابو محمد عمیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قطع رحمی کرنیوالا جنت میں داخل نہیں ہوسکتا اس حدیث میں قطع رحمی پر کتنی سخت وعید ہے اس کے باوجود ہمارے معاشرہ میں یہ گناہ کبیرہ عام ہے لوگ اس کے مرتکب ہو رہے ہیں اس وعید کا مقصد یہی ہے کہ لوگ اس سے اجتناب کریں۔
ہر حال میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی ضروری ہے۔اپنے والدین کی وفات کے بعد ان کے دوستوں سے تعلق برقرار رکھنا، ان سے حسن سلوک کا معاملہ کرنا بڑی نیکی ہے اور صلہ رحمی کا تقاضابھی۔ اس اعتبار سے ماں کے دوستوں ، ان کے رشتوں کو فراموش کردینا ان سے تعلق استوار نہ رکھنا شرعاً سخت ناپسندیدہ اور ناراضگی رب کا موجب ہے ۔ حضرت ابی اُسید مالک بن ربیعہ الساعدی ؓ سے روایت ہے کہ ایک بار ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ بنی سلمہ کا ایک آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ کیا کوئی ایسی نیکی باقی ہے جو میں والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ کروں آپ نے فرمایا ہاں ان کے حق میں دعائے مغفرت کرنا، ان کے بعد ان کے لئے ہوئے عہد کو پورا کرنا ان کے رشتوں کو جوڑنا جو ان ہی کی وجہ سے جوڑے جاتے ہیں، ان کے دوستوں اور سہیلیوں کی عزت کرنا۔ (ابوداؤد) ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بہتر سلوک کریں ان سے
رشتوں کو جوڑے رکھیں، قطع رحمی سے اجتناب کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *