And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided…(3:103)

کون آگے؟ صاحب مال یا صاحب قرآن

Posted by:

|

On:

|

عَنْ ابیْ سَعِیدِنِِ الْخُدْرِیّؓ قَالَ جَلَسْتُ فِیْ عِصَابَۃٍ مِنْ ضُعْفَائِ اَلْمُھَاجِرِیْنَ و اِنَّ بَعَضَھُمْ یَسْتَتِرُ بِبَعْضِ مِنَ الْعُریٰ و قاریٔ یَقْرَأُ عَلَیْنَااِذَجائَ رَسُولُ اﷲِ ﷺ فَقَامَ عَلَیْنَا فَلَمَّا قَامَ رَسولُ اﷲﷺ سَکَتَ الْقارِیُٔ ، فَسَلَّمَ ثُمَّ قَال: مَا کُنْتُمْ تَصْنَعُوْنَ ، قُلْنَا کُنّا نَسْتَمِعُ اِلَیٰ کِتٰبِ اﷲ، فَقَالَ الَحَمْدُﷲِ الَّذِیْ جَعَلَ مِنْ اُمتّیِ مَنْ اُمِرتُ اَنْ اَصْبِرَ نَفْسِیْ مَعَھُمْ ، قَالَ فَجَلَسَ وَسْطَنَا لِیعَدِلَ بِنَفْسِہٖ فِیْنَا، ثُمَّ قَالَ بِیَدِہٖ ھَکَذا فتَحَلَّقُوْا و بَرَزَتْ وُجُوھُھُم لَہٗ، فَقَالَ اَبْشِرُوا یا مَعْشَرَ صَعَالِیْکِ الْمُھَاجِرِیْنَ بِالنُّوْرِ التِّامّ یَوْمَ الْقِیاَمۃِ، تَدْخُلُوْنَ اَلْجَنّۃَ قَبَلَ اَغْنِیٰائِ النَّاسِ بنِصفِ یَوْمٍ وَ ذٰلِکَ خَمْسُ مِائَۃِ سَنَۃٍ‘‘(رواہ ابوداؤد)


ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک روز غریب و خستہ حال مہاجرین کی ایک جماعت میں بیٹھاہوا تھا۔ ان میں سے ہر ایک دوسرے کی اوٹ لے رہا تھا کیونکہ ان کے تن پر پورے کپڑے نہیں تھے ، اور ایک قاری ہمیں قرآن سنا رہا تھا۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور ہمارے پاس آکر کھڑے ہوگئے تو قرآن سنانے والے صحابی خاموش ہوگئے ۔ حضور ﷺ نے ہمیں سلام کیا پھر فرمایا تم لوگ کیا کررہے تھے؟ ہم نے عرض کیا کہ ہم اللہ کی کتاب سن رہے تھے۔ تب آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اس اللہ کا شکر ہے جس نے میری امت میں ایسے لوگ فراہم کردئیے ہیں جن کے بارے میں مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان کی معیت پر صبر کروں۔ اس کے بعد آپ ﷺ ہمارے درمیان اس طرح بیٹھ گئے گویا ہم میں سے ایک ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے اشارہ کیا ہاتھ سے ایسا کہ لوگوں نے حلقہ بنالیا اور سب کے چہرے حضور ﷺ کے سامنے ہوگئے ۔پھر آپ ﷺ نے فرمایااے خستہ حال مہاجرین !خوش خبری ہو تمہیں روز قیامت مکمل نور کی ، تم لوگ مالداروں سے آدھے دن پہلے جنت میں چلے جاؤگے اور وہ پانچ سو سال کے بقدر ہوگا۔ (ابوداؤد )

حدیث پر غور کرنے سے چند باتیں سامنے آتی ہیں۔

اوّل یہ ہے کہ مہاجرین دین کی خاطر بے سروسامانی کے عالم میں گھر بار چھوڑ کر رسول اﷲ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوگئے تھے۔اُن کے پاس نہ تن ٹھانکنے کو کپڑا تھانہ سر چھپانے کو جگہ ، نہ کھانے کا کچھ ٹھکانہ۔ لیکن دین سے ایسی محبت تھی کہ بے کار کی باتیں کرکے وقت کاٹنے کے بجائے اللہ کا کلام قرآن مجید سنتے اور سناتے تھے ۔یادکرتے اور سمجھتے سمجھاتے تھے۔

دوسری بات یہ کہ نبیﷺ نے یہ فرمایا کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہاری صحبت اور معیت میں زیادہ سے زیادہ رہوں اور اس پر مطمئن و قانع رہوں۔ یہ سورۂ کہف کی آیات ۲۸و۲۹ کی طرف اشارہ ہے ۔ ہر نبی اور ہر مبلغ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ بڑے اور بااثر لوگ اور سردار قسم کے افراد اس کا ساتھ دیں اور اس کی مدد کریں تاکہ دین کے کام کو ترقی ملے۔ ایسی صورت میں غریب، مفلوک الحال، معاشرہ میں بے وزن لوگ جب اُس کی طرف بڑھتے ہیں تو وہ سوچتا ہے کہ ایسے لوگوں کی بھیڑ بھی میرے ساتھ جمع ہو جائے اور سردار قسم کے لوگ دور ہی رہیں تو بھلا اس کام کو ترقی کب اور کیسے مل سکے گی۔ دوسری طرف کفار مکہ کے سردار بھی نبیﷺ کو اس بات کا طعنہ دیتے تھے کہ سرداروں میں سے تو کوئی آپ پر ایمان لایا نہیں، قوم کے عقلمنداور صاحب حیثیت لوگ، بااثر افراد تو آپ کے دین کو قبول کرتے نہیں۔ یہ بے وقوف اور سماج میں بے وزن لوگ آپ پر ایمان لائے ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ ان کو ساتھ لے کر آپ دنیامیں اللہ کا دین پھیلا دیں گے۔ ان مغرور اور خود سر لوگوں کے جواب میں آپ کو مخاطب کرکے فرمایا جو شخص ایمان لایا وہی دراصل قیمتی اور عقلمند ہے اور جو شخص ایمان قبول نہیں کرتا۔ دین سے لاپرواہی برتتا ہے وہ نہ عقلمند ہے نہ باحیثیت ۔ آج اگر کوئی شخص رئیس اور شیخ ہے تو کل اس کی ریاست اور شیخی ختم ہو جانی ہے ۔ اور یہی کم حیثیت ، نادار اور خستہ حال لوگ سردار بن جائیں گے۔ قوم کے معاملات ان کے ہاتھ میں آجائیں گے ۔ اس لئے اے نبیﷺ آپ مغرور و خود سر مالداروں اور امیروں کی پروانہ کیجئے ۔ اُن کے لئے اِن مخلص مفلوک الحال لوگوں سے بے توجہی نہ برتئے بلکہ اِن کی رفاقت پر مطمئن ہو جائیے۔

نبی ﷺ نے جب اِن غریب و بے سروسامان مہاجرین کا دین سے انہماک اور قرآن سے دلچسپی دیکھی تو آپﷺ نے اُن کی وقعت اور عزت کو انہیں جتلادیا ۔ اور اللہ کی حمد کرکے مزید تاکید کردی۔ آپ ﷺ نے ان کی اہمیت اور عزت کو بیان کردیا۔ بلکہ آپ ﷺ نے ان کی عزت افزائی فرمائی اور انہیں حلقہ میں بیٹھایا اور ان کے درمیان بیٹھ گئے ۔ راوی کہتے ہیں کہ اپنے اور ہمارے درمیان کے فرق و امتیاز کو ختم کرنے کے لئے گویا سردار و سید اور رہبر و رہنما اپنے اِن جانثاروں کو عملاً بتا دینا چاہتاہے کہ تم مجھ سے بہت قریب ہو جس طرح تم آپس میں قریب ہو۔

تیسری بات یہ ہے کہ آپ ﷺ نے انہیں آخرت سے متعلق ایک خوشخبری سنائی ۔ مکمل و کامل نور حاصل ہونے کی اور دولت مند اہل ایمان سے آدھے دن پہلے جنت میں داخل ہونے کی ۔ یعنی رسول اللہ ﷺنے انہیں تسلی دی کہ اللہ کے دین کی خاطر تم نے جو تکلیفیں اٹھائی ہیں، جو خطرات مول لئے ہیں۔ جس کی رضا حاصل کرنے کے لئے تم نے اپنے گھر بار چھوڑے ہیں۔ اور غربت و تنگدستی کی زندگی کو اپنے گھروں کے عیش و آرام پر ترجیح دی ہے تو تمہیں خوشخبری ہو کہ اِن قربانیوں کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ تمہاری کیسی عزت افزائی کرے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *