And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided…(3:103)

کامیاب ازدواجی زندگی

Posted by:

|

On:

|

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ ’’اِسْتوْصُوْا بِالنِّسَائِ خَیْراً فَاِنَّ الْمَرْأَۃَ خُیْراً فَاِنَّ الْمَرْأۃَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعَ وَ اِنَّ اعْوَجَ شَئْیٍ فِی الضِّلَعِ اَعْلَاہُ فَاِنْ ذَھَبْتَ تُقِیْمُہٗ کَسَرْتَہٗ وَ اِنْ تَرَکْتَہٗ لَمْ یَزَلْ اَعْوَجَ فَاَسْتَوْصُوْا بِالنِّسَائِ‘‘(صحیح بخاری کتاب الانبیاء ، صحیح مسلم کتاب الرضاع)


ترجمہ : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے میں میری وصیت قبول کرو۔ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی کا اوپر کاحصہ بہت ٹیڑھا ہوتا ہے ۔ اگر تم اُسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اُسے توڑ ڈالو گے اور اگر تم اسے اس کے حال پر چھوڑ دوگے تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی۔ پس تم عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے میں میری وصیت قبول کرو‘‘۔

تشریح: گھریلو زندگی اسلامی نظام معاشرت کی بنیاد فراہم کرتی ہے اورگھرکو ایک چھوٹی سی سلطنت قرار دیا گیا ہے جہاں اقتدار فریقین یعنی خاوند اور بیوی کو حاصل ہوتا ہے ۔ دونوں کے کچھ حقوق و فرائض ہیں لہٰذا دونوں فریق جب اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن نبھاتے ہیں تو یہ کامیاب ازدواجی زندگی کا ضامن تو ہوتا ہی ہے ساتھ میں ایک صالح معاشرے کی تشکیل کا باعث بھی۔
یہ بات معلوم ہے کہ کوئی بھی اجتماعی ڈھانچہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا اگر اس کے اجزا ء میں ایک دوسرے کے ساتھ مناسبت اور الفت نہ ہو۔ اسی طرح ازدواجی زندگی اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک اس ادارے کے ارکان (شوہر اور بیوی) میں ایک دوسرے سے محبت اور پیار نہ ہو۔
اوپر جو حدیث بیان کی گئی ہے اس کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس میں ایک ایسے نکتے اور پہلو کی طرف پہلے سے رہنمائی کردی گئی ہے جو ایک خوشگوار ازدواجی زندگی کو نقصان دہ بننے سے بچاسکتی ہے ۔ جب کسی فردکے پیش نظر یہ حدیث ہوگی تو وہ تمام لغزشوں اور خطاؤں کو جوبیوی سے دانستہ یا نادانستہ طور پر سرزد ہوتی ہے ، اس کی فطرت و جبلت کا خاصہ مانتے ہوئے نظر انداز کرنے کی کوشش کرے گا اور اس طرح اس کی گھریلو زندگی میں تلخیاں بتدریج کم ہوتی چلی جائیں گی۔ معاملہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی ضرر رساں امر کے تعلق سے قبل از وقت آگاہی حاصل کرلینا سود مند ثابت ہوا کرتا ہے۔
اپنی ازدواجی زندگی کو فریقین کس طرح خوشگوار بناسکتے ہیں اس ضمن میں کچھ باتیں سمجھنا ضروری ہے۔ روئے زمین میں کوئی انسان (ماسوائے انبیائ) کلی طور پر محاسن کا مجموعہ نہیںہوتا ہے۔ خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیوں سے بھی وہ مستثنیٰ نہیںہوتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے مومن شوہر کو یہ تعلیم سکھائی ہے کہ وہ اپنی بیوی کی اخلاقی خوبیوں پر نگاہ رکھے۔ گرچہ کوئی عادت و خصلت پسند نہ ہولیکن دوسری خصلت و عادت کو وہ پسند آسکتی ہے۔ اگر اس کا ذوق بیوی کی ان غیر اختیاری چیزوں کو پسند نہیںکرتا تو آخر وہ اس کے دوسرے اوصاف و اخلاق سے سکون تو محسوس کرتا ہے۔ غیر اختیاری خصلتوں یا معمولی درجہ کی اختیاری کمزوریوں کی وجہ سے شوہر کو بیوی سے بغض اور نفرت کا اظہار نہ کرنا چاہئے ۔
یہ اسلام کے محاسن میں سے ہے کہ اس نے وہ تمام خصائل و خصوصیات تک گنوادی ہیں جو ایک شوہر کو سراپا ’’خیر‘‘ (صالح اور نیک) بناتا ہے اور بیوی کو ’’دنیا کی سب سے قیمتی متاع‘‘
رسول اقدس ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے کے نہ صرف گُر سکھائے ہیں بلکہ وہ خود ایک بے مثال اور عملی نمونہ بھی ہیں۔ وہ اپنی ازواج کے مابین عدل و انصاف کے قائم رکھنے کا ہو یا اپنے اہل خانہ کے ساتھ لطف و کرم ، محبت و نرمی کا برتاؤ ہو یا گھریلو کام کی انجام دہی کا ۔ غرضیکہ زندگی گزارنے کے کسی بھی پہلو کو تشنہ نہ چھوڑا ، معاشرت کے ہر ہر پہلو پر آپﷺ نے اپناجیتا جاگتا مبارک اسوہ امت مسلمہ کے لئے چھوڑا ہے ۔’’اَنَا خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ‘‘(میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے میں تم سب سے بہتر ہوں)کہہ کر گھریلو زندگی میں اپنی افضلیت دنیاوالوں کو بتادی اور بہترین شوہر کی خوبیاں بھی۔
ازدواجی زندگی کی کامیابی جہاں اشخاص کے رویے ، سلوک اور اخلاق پر منحصر ہیں وہیں نیک اور صالح بیوی پر بھی رسول اکرم ﷺ سے جب ایک بہتر بیوی کے بارے میں استفسار کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ :
’’جب اس کا شوہر اُسے دیکھے تو خوش کردے‘‘
’’اُسے کسی بات کا حکم دیا جائے تو بجا لائے ‘‘
’’شوہر کے مال اور اپنی عزت و عصمت کے معاملہ میں وہ ایسا رویہ اختیار نہ کرے جو اس کے شوہر کو ناگوار ہو‘‘
رسول ﷺ نے قریشی عورتوں کی تعریف اس وجہ سے کی کہ ’’وہ اپنی اولاد کے لئے بڑی مہربان اور شوہر کے مال و دولت کی اچھی نگہبان ہوتی ہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ ازدواجی زندگی کی کامیابی اور مثالی معاشرے کے قیام کے لئے یہ ضروری ہے کہ میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کے حقوق کو سمجھیں اور اس کا خیال رکھیں اور دونوں میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داریوں کو ،جس کا انہیں مکلف بنایا گیا ہے احسن طریقے سے نبھائیں ورنہ فریقین میں سے کسی ایک پر ذمہ داری اور حقوق کی ادائیگی کا بارگراں ڈال کر ایک کامیاب ازدواجی زندگی کی تمنا کرنا عبث ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *