And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided…(3:103)

دنیا کی بے ثباتی

Posted by:

|

On:

|

عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ اَنَّ رَسُولَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِالسُّوْقِ دَاخِلاً مِنْ بَعْضِ الْعَالِیَۃِ وَ النَّاسُ کَنْفَتَیْہٖ فَمَرَّ بِجَدْیِ اَسَکُّ مَیْتَۃً فَتَنَاولَہٗ وَ اَخَذَ بِاُذْنِہٖ ثُمَّ قَالَ ’’اَیُّکُمُ یُحِبُّ اَنْ یَکُوْنَ بِدِرْھَمٍ فَقَالُوا مَا نُحِبُّ اَنَّہٗ لَنَا بِشَیئٍ وَ مَا نَصْنَعُ بِہٖ ثُمَّ قَالَ اَتُحِبُّوْنَ اَنَّہٗ لَکُمْ قَالُوا وَ اﷲِ لَوْ کَانَ حَیَّاً کَانَ عَیْباً فِیْہٖ لاِنَّہٗ اَسَکُّ فَکَیْفَ وَ ھُوَ مَیْتَۃٌ فَقَالَ فَوَاﷲِ لَلدُّنْیَا اَھْوَ نُ عَلیَ اﷲِ مِنْ ھٰذا عَلَیْکُمْ‘‘(مسلم کتاب الزھد)


ترجمہ : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک گاؤں سے آتے ہوئے بازار سے گذر ہوا کچھ لوگ آپﷺ کے ہمراہ تھے آپ ﷺ نے چھوٹے کان والے بکری کے مردہ بچے کو پڑا دیکھا تو اسے کان سے پکڑ کر حاضرین سے سوال کیا تم میں سے کون اسے ایک درہم میں لینا پسند کرے گا۔ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ہم تو اسے کسی قیمت پر بھی لینا پسند نہیں کرتے یہ ہمارے کس کام آئے گا۔ آپﷺ نے دوبارہ فرمایا کیا تم اسے اپنے لئے پسند کرتے ہو۔ لوگوں نے عرض کیا خدا کی قسم اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو عیب دار ہونے کی وجہ سے خریدنے کے لئے مناسب نہ تھا اور اب تو یہ عیب کے ساتھ مردہ بھی ہے۔ تو آپﷺ نے فرمایا خدا کی قسم اللہ کے نزدیک دنیا اس سے زیادہ حقیر اور بے قیمت ہے جتنا یہ مردہ بچہ تمہاری نگاہ میں حقیر اور بے وزن ہے‘‘۔

تشریح: حضور اقدسﷺ عموماً مشکل مسئلہ کو محسوس مثال کے ذریعہ سمجھاتے تھے جس سے بات آسانی سے ذہن میں اتر جاتی تھی مذکورہ بالا حدیث میں بھی آپﷺ نے وہی طریقہ اپنایا اولاً استفسار کے ذریعہ مردار بکری کی بے مائیگی کا یقین صحابہ کرامؓ کے دل میں بٹھایا اور ان کے جواب سے جب یہ واضح ہوگیا کہ کوئی بھی اس مردار کو قابل التفات نہیں سمجھتا تو آپﷺ نے فرمایا کہ دیکھو یہ دنیا بھی دل لگانے کے قابل نہیں ہے یہ تو اللہ کے نزدیک اس مردار بکری سے بھی زیادہ حقیر ہے۔ غور کرنے کا مقام ہے ہم مردار سے بھی حقیر دنیا کے پیچھے کس قدر سرگرداں ہیں۔ ہمارے شب و روز کی تگ و دو کا محور دنیا ہے اس کی لذتوں نے ہم کو اپنا گرویدہ بنالیا ہے اس کو حاصل کرنے کی دھن نے ہم کو غفلت میں ڈال دیاہے ہم دنیا کے بدلے آخرت کا سودا کررہے ہیں اور اس کی ترقی کو کامیابی کا معراج سمجھتے ہیں جبکہ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی رہنے والی ہے۔حضور اقدس ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : ’’اَلاَ اِنَّ الدُّنْیَا مَلْعُوْنَۃٌ وَ مَلْعُونٌ مَا فِیْھَا‘‘(ترمذی) خبردار دنیا معلون ہے اور جو کچھ اس میں ہے وہ بھی ملعون ہے ۔ حدیث پاک سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ؎
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
تاہم مذہب اسلام رہبانیت کو پسند نہیں کرتا بلکہ بقدر ضرورت دنیا سے منتفع ہونے کی اجازت دیتا ہے لہٰذا دنیا کو ضرورت کے درجہ تک محدود رکھ کر اس سے نفع اٹھائیں اور آخرت کو مقصد سمجھ کر اس کی فکر کریں یہی بات حضور اقدس ﷺ کے اس واقعہ سے واضح ہوتی ہے ایک دفعہ آپ ﷺ چٹائی پر آرام فرما تھے۔ آپ کے پہلو پر چٹائی کے نشانات نمایاں تھے جسے دیکھ عبداللہ بن مسعود ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا ہم آپ کی راحت کے لئے نرم گدا تیار کریں تو آپ ﷺ نے فرمایا نہیں! مجھے دنیاسے کیا سروکار میں تو دنیا میں اس سوار کی طرح ہوں جو کسی درخت کے سائے میں تھوڑی دیر سستانے کے لئے ٹھہرتا ہے پھر آگے کے لئے چل پڑتا ہے ۔
دنیا کی اہمیت صرف اس قدر ہے کہ یہ آخرت کے لئے کھیتی ہے جو اس میں ایمان کے بیج بوئے گا اور عمل سے اس کو سیراب کرے گا وہ کل قیامت کے دن کامیابی و کامرانی کی فصل کاٹ کر جنت میں عیش کرے گا۔ اور جو دنیا کے لہو و لعب میں مست رہے گا اور ایمان و عمل سے تہی دست ہوکر جائے گا وہ آخرت میں ناکام اور نامراد ہوگا اور جہنم کا ایندھن بنے گا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ دنیا قابل التفات شئی نہیں ہے اس لئے ہم اس کو اپنے دل میں نہ بسائیں اصل چیز آخرت ہے ہم اسی کو اپنا مقصود جانیں اور اپنی توجہ اسی پر مرکوز رکھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *