And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided…(3:103)

عالم کون ہے ؟

Posted by:

|

On:

|

وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَآبِّ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَ لْوَانُهٗ كَذٰلِكَ اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ (28)


Quran Ayah Data not found….for Surah:35, Ayah:28 and Translation:93

Quran Surah:35 Ayah:28

’’بلاشبہ اللہ سے اس کے بندوں میں سے علم والے ہی ڈرتے ہیں‘‘
اس مختصر سی آیت میں بڑے حقائق بیان کئے گئے ہیں:
(۱) اس آیت میں لفظ ’’اَلْعُلَمَائُ‘‘استعمال ہواہے لفظ علماء سے عموماً ہم اور آپ یہ سمجھتے ہیں کہ جو قرآن و حدیث اور فقہ و کلام کا علم رکھتے ہیں وہ علماء ہیں۔ لیکن یہ ایک رواجی اور اصطلاحی مفہوم ہے ۔ قرآن میں یہاں صرف ایسے ہی لوگوں کو علماء قرار نہیں دیا گیاہے ۔ بلکہ اس آیت کا جو سیاق ہے اس کی روشنی میں اس کا معنی متعین کیا جائے تو علماء سے وہ لوگ مراد ہیں جو مظاہر قدرت پر غور وفکر کے نتیجے میں معرفت الٰہی سے ہم کنار ہوتے ہیں چنانچہ اس میں ایسے سائنس داں اور دانشوران بھی شامل ہیں جو تحقیق و جستجو کے نتیجے میں اللہ کو پاجاتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ بھی شامل سمجھے جاسکتے ہیں جو بظاہر پڑھنا لکھنا تو نہ جانتے ہوں لیکن اپنی عقل و فکر کو استعمال کرکے اللہ کی معرفت حاصل کرلیں۔ خلاصہ یہ کہ علماء سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں معرفت خداوندی حاصل ہو خواہ وہ قرآن و سنت کے ذریعے یا کائنات پر غور و فکر کے نتیجے میں لیکن اگر کسی کو معرفت خداوندی حاصل نہیں ہوتی تو خواہ وہ کتنا ہی جان کار ہواسے علماء میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔
(۲) دوسری حقیقت یہ بیان ہوئی ہے کہ علم سے مقصود خشیت الٰہی ہے ۔ خشیت کسی چیز کی عظمت و رعب اور جاہ و جلال کی وجہ سے پیدا ہونے والے احساس کو کہتے ہیں۔ یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ کی ذات و صفات کا کسی کو علم حاصل ہو تو اس کا لازمی نتیجہ برآمد ہونا چاہئے ۔ اللہ کی قدرت و سطوت کی بنا پر اس کا دل لرز جانا چاہئے اور خشیت الٰہی کی کیفیت ہمہ آن طاری رہنی چاہئے ۔ علم حاصل ہونے کے بعد اگر یہ کیفیت طاری نہیں ہوتی تو وہ علم بے کار ہے اور ایسے آدمی کو عالم نہیں کہا جاسکتا۔ چنانچہ مشہور تابعی ربیع بن انسؓ کا قول ہے :’’مَنْ لَمْ یَخَشَ فَلَیْسَ بِعَالِمٍ‘‘ جس میں خشیت پیدا نہ ہو وہ عالم نہیں ہے ۔ مشہور مفسر صحابی عبداللہ بن مسعود ؓ کا کہناہے ’’لَیْسَ الْعِلْمُ بِکَثْرَۃِ الْحَدِیْثِ وَلٰکِنَّ الْعِلْمَ بِکَثْرَۃِ الْخَشِیَّۃِ‘‘ علم بہت زیادہ حدیثیں بیان کرنے یا لمبی لمبی باتیں کرنے کا نام نہیںہے بلکہ علم حد درجہ خشیت کا نام ہے۔
خشیت کے سلسلے میں یہ عظیم حقیقت بھی سمجھنا ضروری ہے کہ اللہ کی رضا خشیت کی بدولت ہی حاصل ہوتی ہے ۔ جیسا کہ صحابہ کرام ؓ کی تعریف میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

جَزَآؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَاۤ اَبَدًا رَضِىَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِىَ رَبَّهٗ (8)


Quran Ayah Data not found….for Surah:98, Ayah:8 and Translation:93

Quran Surah:98 Ayah:8

اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ، یہ رضا اس شخص کے لئے ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے ۔
اس آیت میں رضائے الٰہی کو خشیت الٰہی کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے ۔ اللہ کی رضا خشیت الٰہی سے حاصل ہوتی ہے اور خشیت الٰہی علم سے حاصل ہوتی ہے گویا علم بنیادی اور لازمی چیز ہے ۔ اسی لئے علم کے حصول کو فرض قرار دیا گیا ہے ۔’’طَلَبُ الْعِلمِ فَرِیْضَۃٌ عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ وَ مُسْلِمَۃٍ‘‘(ابن ماجہ) علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے ۔
(۳) تیسری حقیقت یہ سمجھائی گئی ہے کہ خشیت الٰہی عارضی طور پر مطلوب نہیں ہے بلکہ مستقل مطلوب ہے ۔ اسی لئے مضارع کا صیغہ ’’یَخْشیٰ‘‘ استعمال ہوا ہے ۔یعنی خشیت الٰہی مستقل مطلوب ہے اور جب خشیت الٰہی مستقل مطلوب ہے تو گویا علم کا حصول بھی مستقل ضرور ت بن گئی اور وہ بھی مستقل مطلوب ہے ۔ اسی لئے حکم ہے ’’اُطْلُبِ الْعِلْمَ مِنَ الْمَھْدِ اِلَی اللَّحْدِ‘‘علم حاصل کروگود سے گور تک۔ زندگی کا کوئی لمحہ علم کے حصول سے خالی نہیں ہونا چاہئے ۔
ایک مرحلے تک علم حاصل کرنے کے بعد جو لوگ سمجھتے ہیںکہ اب ضرورت نہیں رہی ، وہ لوگ غلط فہمی میں ہیں۔ علم ایسا اتھاہ سمندر ہے کہ اس کی کوئی انتہا نہیں جو جتنا زیادہ حاصل کرے گا وہ اتنا ہی فیض یاب ہوگا اور اتنا ہی زیادہ خشیت الٰہی سے معمور ہوگا۔
بڑے ہونے کے بعد مصروفیات بڑھ جاتی ہیں اور یہ سمجھا جاتاہے کہ مصروفیت اور ذمہ داریاں معقول عذر ہیں۔ اس لئے اب علم کے حصول سے پہلو تہی برتنے میں حرج نہیں لیکن یہ بھول ہے ۔جب تک انسان کی جان میں جان ہے وہ اس وقت تک علم کا محتاج ہے ۔ آخر کیا وجہ تھی کہ حضرت عمر بن الخطاب ؓ جیسے جلیل القدر صحابی نے اپنے پڑوسی سے یہ معاملہ طے کیا تھا کہ ایک دن وہ حضور کی خدمت میں رہ کر علم کے موتی سمیٹے گا اور وہ معاشی دوڑ بھاگ میں لگے رہیں گے۔ رات میں وہ پڑوسی وہ سارے علم کے موتی انہیں بتائے گا۔ دوسرے دن وہ پڑوسی ساتھی معاشی دوڑ بھاگ میں لگا رہے گا اور وہ خود خدمت اقدسؐ میں حاضر رہ کر علم کے موتی سمیٹیں گے اور رات میں اپنے پڑوسی ساتھی کو باخبر کریں گے۔ کیا ان کا یہ طرز عمل ہمیں یہ سبق نہیں دیتا کہ ہم اپنی مصروف زندگی میں کچھ ایسا ہی طریقہ اختیار کریں نہ کہ بالکل علمی سرگرمیوں سے دور ہو جائیں اور اسے چھوڑ بیٹھیں۔ اللہ ہمیں اس غفلت سے بچائے ۔آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *