And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided…(3:103)

قربانی کی روح

Posted by:

|

On:

|

’’عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمْ ۵ قَالَ: قَالَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اﷲِ :یَا رَسُوْلَ اﷲِ! مَا ھٰذِہٖ الْاَضَاحِیُّ؟ قَالَ : سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلاَمُ، قَالُوْا فَمَا لَنَا فِیْھَا یَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ بِکُلِّ شَعْرۃٍ حَسَنَۃٌ، قَالُوْا فَا لصُّوفُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِّنْ الصُّوْفِ حَسَنَۃٌ‘‘ (رواہ احمد و ابن ماجہ و الحاکم و قال صحیح الاسناد)


ترجمہ:— ’’حضرت زید بن ارقم ؓ فرماتے ہیںکہ صحابہ کرام ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ یہ قربانی کیاہے ؟ آپﷺ نے جواب دیا :تمہارے باپ ابراہیم ؑ کی سنت ہے۔ صحابہ کرام نے پھر سوال کیا کہ ہمارے لئے اس میں کیا فائدہ ہے ؟ آپﷺ نے جواب دیا : تمہارے لئے ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے ، صحابہ نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ اون کا کیا معاملہ ہے ؟ آپﷺ نے جواب دیا : اون کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔ (احمد، ابن ماجہ اور حاکم نے اس کی روایت کی ہے اور کہاہے کہ اس کی سند صحیح ہے)‘‘۔

توضیح: — مندرجہ بالا حدیث میں تین حقائق بیان کئے گئے ہیں ۔ اول یہ کہ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت اور طریقہ ہے ، دوم یہ کہ حضرت ابراہیم ؑ کو امت مسلمہ کا باپ کہا گیاہے اور سوم یہ کہ قربانی کا اجر ہر بال پر ایک نیکی ہے۔
حدیث میں جو پہلا نقطہ بیان کیا گیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ قربانی ایک ایسا عمل ہے جو رسول اﷲﷺ کے زمانہ سے نہیں شروع ہوا بلکہ عبادت کا یہ طریقہ پچھلی امتوں میں بھی موجود تھا ، غالباً یہی وجہ ہے کہ قربانی کا عمل آج بھی زمین پر موجود تقریباً تمام مذاہب عالم میں پایا جاتا ہے چاہے اس کی شکل جو بھی ہو البتہ قربانی کا صحیح طریقہ اور تصور صرف اسلام ہی میں ہے کیونکہ دیگر مذاہب عالم نے اس کے ساتھ شرک کو ملادیا جبکہ اللہ تعالیٰ نے عمل قربانی کو توحید خالص کے ساتھ خاص کیا تھا اور غیر اللہ کے لئے قربانی کو قابل لعنت عمل قرار دیا تھا چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے ’’وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً لِیَذْکَرُوْا اسْمَ اﷲِ عَلیٰ مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ ۔ فَاِلٰھُکُمْ اِلہٌ وَاحِد……‘‘ (۳۴:۲۲)خود ابراہیم جن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آج ہم قربانی جیسا اہم عمل انجام دیتے ہیں ان کی قربانی بھی صرف از صرف اللہ کے لئے خاص تھی جیسا کہ قرآن خود گواہی دے رہاہے ’’قُلْ اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘ قربانی کے دن خون بہانا اللہ کے نزدیک محبوب ترین عمل ہے ، ارشاد نبوی ہے : ’’مَا عَمِلَ آدَمِیٌّ مِنْ عَمَلٍ یَوْمَ النَّحْرِ أَحَبَ اِلی اﷲِ مِنْ اِھْرَاق الدم‘‘(حسن غریب)
قربانی کا عمل کھرے اور کھوٹے کی پہچان کراتا ہے ، جس کے دل میں خوف خدا، فکر آخرت ، دنیا کی بے ثباتی کا مکمل تصور، رضائے الٰہی کے حصول کی تڑپ ہوگی جو قربانی کی اصل روح ہے وہی اللہ رب العزت کے حضور قربانی پیش کرسکتا ہے۔ دوسری طف جو دل دنیاوی جاہ و جلال ، حرص و طمع ، فکر آخرت سے غافل ہو خوف خدا سے خالی ہو، رضائے الٰہی کے حصول کے بجائے دنیاوی نمود و ریاء کی خاطر مرتا ہو اولاً وہ اللہ کے حضور قربانی ہی نہیں پیش کرتا اور اگر پیش کرتا بھی ہے تو وہ اخلاص سے خالی ہوتی ہے اور اخلاص کی جگہ شہرت اور نمود و ریا کاری لے لیتی ہے جو کہ قربانی کی روح کے خلاف ہے ۔
قربانی حضرت ابراہیم اور اسماعیل کی یاد میں انجام دی جاتی ہے جب ہم ان کی زندگی کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو قدم قدم پر اللہ تعالیٰ ان سے محبوب ترین چاہت اور چیز کا مطالبہ کرکے قربانی مانگتا ہے پھر جب وہ اپنی محبوب خواہش چاہت اور شئی کی قربانی اللہ کے کے حضور پیش کرکے یہ ثابت کردیتے ہیں کہ ہمارا سب کچھ اللہ ہی کیلئے ہے اور اللہ کی خوشنودی کیلئے ہم اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں تب اس جانچ اور امتحان کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو حنیف اور خلیل اللہ کا لقب دیا۔
حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی میں مبتلا اورآزمائش کے تین اہم مور آئے :
(۱) باپ آزر ملک عراق کے سرکاری پنڈت تھے، دنیاوی جاہ و جلال کے مالک تھے جب باپ کی جانشینی کا وقت آیا تب دنیاوی جاہ و منصب اور کیرئیر کا خیال کئے بغیر انتہائی بے باکی کے ساتھ شرک و بت پرستی کے متعلق ڈھیر سارے سوالات کرکے اپنی قوم کو لاجواب کردیا اور باپ دادا کے نقش قدم پر چلنے سے صاف صاف انکار کرکے حق کی تلاش میں لگ گئے ۔ ابراہیم ؑ کا یہ عمل بہت بڑی قربانی تھی جسے ہم کو بھی اپنا نا ہوگا؟ آج ہمیں بھی حق کی تلاش اور حق کی اتباع کرنے میں فرسودہ رسم و رواج ، غلط اسکولی ماحول، غلط دوستی ، باپ داد کے غلط طور طریقے ، شادی بیاہ کی غلط رسم و رواج غرضیکہ کسی بھی خلاف حق عمل کو حصول رضائے الٰہی کی راہ آڑے نہیں آنے دینا چاہئے یہی ہمارے قربانی کی اصل روح ہے تب جاکر ہم سنت ابراہمی کو زندہ کر پائیں گے۔
(۲) حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کا دوسرا اہم موڑ تقریباً اسی سال کی عمر ہے جہاں تک انہیں کوئی اولاد نصیب نہیں ہوئی اور کوکھ خالی پڑی رہی اس کے باوجود اللہ رب العزت کے دربار کو چھوڑ کر اولاد کے لئے کسی اور کے در پر نہیں جھکے، اس بڑھاپے میں جب اللہ تعالیٰ نے انہیں غلام حلیم اسماعیل ؑ سے نوازا ، وہیں پر بیوی ہاجرہ اور نوزائیدہ بیٹے اسماعیل کو وادیٔ غیر ذی زرع میں چھوڑ کر آنے کا بھی حکم دیا یہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی کیونکہ بیٹے کی محبت ایک صاحب اولاد ہی سمجھ سکتا ہے اور وہ بھی جب بڑھاپے میں ملے اور پھر اسے اپنے سے الگ کرکے ایک غیر آباد دور دراز مقام پر اکیلے چھوڑ دینا یقینا رضائے الٰہی کے حصول کے لئے یہ ایک غیر معمولی قربانی تھی جس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے لیکن محبت خداوندی اور اطاعت الٰہی سے سرشار حضرت ابراہیم ؑ رب کائنات کے حکم کو بجا لائے اور بیوی ہاجرہ اور بیٹے اسماعیل کو چٹیل اور ویران زمین میں چھوڑ کر ایک عدیم المثال قربانی پیش کی ۔
اللہ تعالیٰ آج بھی اپنے مومن بندوں سے اس طرح کی قربانی چاہتا ہے ۔ اپنی اولاد کو دین سکھانا، انہیں دینی تعلیم سے آراستہ کرنا، اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور ان کی اتباع کا ذہن بنانا ہمارا آج کا اولین فریضہ ہے ۔ اولاد کو اللہ ، رسول اور دین اسلام کے لئے ہر طرح کی قربانی پیش کرنے کے لئے تیار رہنے کی تعلیم دینا اولاد کو ایسے کام کا حکم دینا جس سے اللہ خوش ہوتا ہے اور ایسے کام سے منع کرنا جس سے اللہ ناخوش ہوتا ہے ، انہیں غلط راستہ، اور غلط افکار و نظریات سے بچانا اور اس کی تدبیر کرنا نیز ہمہ وقت رضائے الٰہی کے حصول کے لئے کرنا سنت ابراہیمی کو زندہ کرنے کے مترادف ہے ۔ تب جاکر ہماری قربانی ، قربانی ہوگی اور اللہ ہماری قربانی کو قبول فرمائے گا اور مستقبل میں ہمارے تاریخ باقی رکھے گا اور اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو ہماری اولاد اور خود تم بھی دنیا کی رنگینیوں میں الجھ کر اپنے دین و ایمان کا سودا کرسکتے ہیں، مادیت ہمیں اپنا لقمہ بناسکتی ہے ، جذبہ حصول رضائے الٰہی کو ختم کرسکتی ہے، عزت و شرف کے مقام سے اتار کر ذلت و مسکنت کے گھڑے میں پھینک سکتی ہے اور عیدالاضحی کے موقع پر رب کے حضور دی جانے والی قربانی بے کار اور بے روح بلکہ ایک رسم بن کر رہ جائے گی کیونکہ اللہ کو گوشت اور خون کی ضرورت نہیں بلکہ تقویٰ ، خوف خدا اور جذبہ حصول رضائے الٰہی کی ضرورت ہے جو کہ قربانی کی اصل روح ہے ، ارشاد ربانی ہے : ’’لَنْ یَّنَالَ اﷲَ لُحُوْمُھَا وَ لاَ دِمَأئُ ھَا وَ لٰکِنْ یَّنَالُہٗ التَّقْویٰ مِنْکُمْ…‘‘ (۳۷:۲۲)
(۳) ابراہیم ؑ کی زندگی کا تیسرا سب سے اہم اور عدیم المثال تاریخی موڑ لخت جگر اسماعیل ؑ کو اللہ کے حکم پر قربان کرنا ہے یہ ایک ایسا لمحہ تھا جب زمین و آسمان دونوں تھرا گئے تھے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے کی قربانی پیش کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ اور ان کا پورا سرمایہ اللہ رب العالمین ہی کے لئے ہے ۔ زندگی کے اس سب سے مشکل اور اہم امتحان کی کامیابی پر اللہ رب العزت نے انہیں کامیابی کی سر ٹیفکیٹ دیا اور انعام سے بھی نوازا ۔ چنانچہ اللہ فرماتا ہے ’’اِنَّ ھَذا لَھُوَ الْبَلاَئُ الْمُبِیْنْ و فدینٰہُ بِذَبْحٍ عَظیمٍ‘‘ (۱۰۸-۱۰۶:۳۷)
خلاصۃ الدرس:
قربانی ہمارے جد امد حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے جس سنت کو انجام دئیے بغیر اپنے ایمان و عمل کو صیقل نہیں کرسکتے ۔ آج ہم نے عیدالاضحی کے موقع پر ایک ،دو یا کئی جانوروں کی قربانی پیش کرکے یہ سمجھ لیاہے کہ اصل قربانی یہی ہے جبکہ قربانی کی یہ ایک ظاہری صورت ہے ہم کو اسے اپناتے ہوئے اپنے تن ، من اور دھن کی قربانی کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا چاہئے ۔ تب جاکر رب کے حضور پیش کی گئی قربانی کی قبولیت کی امید کریں ورنہ ہماری قربانی صحیح معنی میں قربانی نہ ہوکر ایک سالانہ رسم کی ادائیگی ہوگی ، کیونکہ قربانی کی روح تقویٰ ، خوفِ خدا اور جذبہ حصول رضائے الٰہی کا نام ہے ۔
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اﷲ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *