لَـقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَى النَّبِىِّ وَالْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ فِىْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيْغُ قُلُوْبُ فَرِيْقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ اِنَّهٗ بِهِمْ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ (117)
Quran Ayah Data not found….for Surah:9, Ayah:117 and Translation:93
Quran Surah:9 Ayah:117
’’یقینا اللہ مہربان ہوانبیؐ پر اور اُن مہاجرین و انصار پر جنہوں نے بڑی تنگی کے وقت میں نبیؐ کا ساتھ دیا۔ اگرچہ ان میں سے کچھ لوگو ںکے دل کجی کی طرف مائل ہوچلے تھے(مگر جب انہوں نے اس کجی کا اتباع نہ کیا بلکہ نبی کا ساتھ دیا تو ) اللہ نے انہیں معاف کردیا، بے شک اُس کا معاملہ اِن لوگوں کے ساتھ شفقت و مہربانی کا ہے‘‘۔
ہم میں سے کون ہے جس کے دل میں یہ خواہش اور تمنا نہ ہو کہ اسے اللہ کی رحمتیں اور عنایات حاصل ہو جائیں لیکن کیا ہمیں معلوم ہے کہ یہ کیسے حاصل ہوتی ہیں؟ اس آیت میں دراصل اسی کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔ آئیے ذرا وہ راہ معلوم کرنے کی کوشش کریں۔
توبہ کے معنی پلٹنے کے آتے ہیں لیکن جس کی طرف فعل کی نسبت کی جاتی ہے اس کی حیثیت کے اعتبار سے معانی میں فرق ہوتا ہے۔ اگر بندے کی طرف نسبت ہو تو معنی ہوتے ہیں۔ گناہ سے پلٹنا، بازآنا، غلطی پر مغفرت چاہنا ۔ جیسا کہ ہم اردو زبان میں عموماً یہ لفظ اس معنی میںاستعمال کرتے ہیں۔ لیکن اگر اس فعل کی نسبت اللہ کی طرف کردی جائے تو معنی ہوں گے گناہ گار کی توبہ قبول کرنا، مہربان ہونا، یہاں فعل کی نسبت اللہ کی طرف ہے اس لئے دوسرے مفہوم میں ہے۔ ٹھیک یہی معاملہ لفظ ’’صلوٰۃ‘‘ کا ہے جب بندے کی طرف نسبت ہوتی ہے تو مفہوم ہوتا ہے۔ رحمت کی درخواست کرنااور جب اسی لفظ کی نسبت اللہ کی طرف ہو جاتی ہے تو مفہوم ہوتاہے رحمت برسانا ، رحمت نازل کرنا۔
’’لَقَدْ تَّابَ اﷲُ‘‘ ’’یقینااللہ مہربان ہوا ‘‘ بات ماضی کے صیغے میں اور تاکیدی انداز میں کہی جارہی ہے لیکن کن پر مہربان ہوا ان کے نام نہیں گنائے گئے بلکہ صفات گنائی گئی ہیں، (۱) نبی پر(۲) مہاجرین پر(۳) انصار پر
صفاتی اسلوب میں بیان کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی اپنے آپ کو ان صفات کا حامل بنالے وہ اللہ کی مہربانی اور عنایات کا حق دار بن سکتا ہے۔
سب سے پہلی صفت ’’نبی‘‘(خبر دینے والا) ہے۔ یہ ایک اصطلاحی لفظ ہے۔ جو اللہ کا پیغام پہچانے والے برگزیدہ بندوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ حضرت محمدؐ چونکہ خاتم الانبیاء (آخری نبی) تھے ۔ اس لئے اب کوئی اصطلاحی معنوں میں نبی نہیں ہوسکتا ۔ لیکن نبی کا لایا ہو جو پیغام ہے وہ آج بھی موجود ہے اور اسے عام انسانوں تک پہنچانے کا کام آج بھی باقی ہے۔ بلکہ یہ کام انجام دینے کی خود حضرت محمدؐ نے تاکید فرمائی ہے ’’بَلِّغُوْا عَنِیْ وَ لَوْآیَۃً‘‘ میری طرف سے پہنچادو گرچہ ایک آیت ہی ہو۔ اسی طرح آپ ؐ نے ہدایت فرمائی تھی ’’فَلِیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ‘‘ پس آج جو حاضر ہیں وہ غائب کو پہنچا دیں۔ چنانچہ اس پیغام کو عام کرکے نبیؐ کی نیابت کا حق ادا کرکے ہم آج بھی اللہ کی مہربانیوں کے حق دار بن سکتے ہیں۔
دوسری صفت ’’مہاجرین‘‘ (ہجرت کرنے والے /ترک کرنے والے ) ہے۔ مراد یہ ہے کہ اللہ کی خاطر ہر بری چیز چھوڑ دی جائے جیسا کہ دوسری یا تیسری وحی کے موقع ہی سے ہدایت دی گئی تھی ’’وَ الرُّجْزَ فَاھْجُرْ‘‘ (المدثر :۵)اور پس ہر بری چیز (شرک وغیرہ) چھوڑ دو۔ یہ ہجر ت کی ابتدائی شکل ہے۔ اسے آپ ابتدائی مرحلہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہجرت کی ایک انتہائی شکل بھی ہے۔ جس میں ضروری نہیں کہ جو چیز چھوڑی جائے وہ بری ہو، بلکہ وہ انتہائی پسندیدہ چیز ہو لیکن اللہ کی خاطر اسے بھی چھوڑنے کی نوبت آجائے تو اسے بھی خوشی خوشی چھوڑ دیا جائے ۔ ماں باپ آل و اولاد ، مال و دولت، اعزہ و اقارب، ملک و و طن کسے عزیز اور محبوب نہیں ہوتے ۔ لیکن ان تمام محبوب چیزوں کو اگر اللہ کی خاطر چھوڑ دیا جائے تو اسے بھی ہجرت کہتے ہیں۔ ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ کرکے صحابہ کرام ؓاور رسول اللہ ﷺ نے یہی عظیم قربانی پیش کی تھی اسی لئے وہ ’’مہاجرین‘‘ کے لقب سے موسوم کئے گئے اور انہیں رتبہ سوا عطا کیا گیا۔ اسلام میں ’’ہجرت‘‘ کو کیا مقام حاصل ہے۔ اسے سمجھنے کے لئے بس یہ تاریخی واقعہ یاد رکھنا کافی ہے کہ جب اسلامی سال شروع کرنے کامعاملہ زیر غور آیا تو بہت ساری تجویزوں میں سب سے زیادہ اہمیت ہجرت کے واقعہ کو دی گئی ۔حضرت عمر فاروق ؓ کی سرکردگی میں تمام صحابہ کرامؓ نے اس سے اتفاق کیا اور اسلامی سال کو سن ہجری کا نام دیا۔چنانچہ اسلامی تقویم (کیلنڈر) ہمیں ہر لمحہ ہجرت کا سبق اور پیغام سناتی رہتی ہے۔ ہائے افسوس آج ہم نہ اسلامی کیلنڈر کا استعمال کرتے ہیں اور نہ اس پیغام کو یاد رکھتے ہیں۔ عملی زندگی میں ہجرت کے معنی و مفہوم سے ہم کتنا دور ہیں؟ بیان کرنے کی ضرورت نہیں پھر ہم کیسے اللہ کی مہربانی کے مستحق ہوسکتے ہیں؟
تیسری صفت ’’انصار‘‘ (مدد کرنے والے ) ہے ۔ انسانی بنیادوں پر ہمدردی کے جذبے سے جو مدد کی جائے اسے بھی ’’نصرت‘‘ (مدد) کہتے ہیں لیکن یہ ایک اصطلاحی لفظ ہے جس کا اطلاق دین کی اشاعت اور غلبہ کے لئے کی جانے والی جدوجہد میں مدد کرنے کے ہیں۔ چنانچہ مکہ میں جب اہل ایمان تنگ کئے جانے لگے تو مدینہ کے اہل ایمان نے مدد کا ہاتھ بڑھایا۔ اپنے یہاں آنے کی دعوت دی اور ہر طرح کا تعاون پیش کیا۔ اس لئے انہیں ’’انصار‘ ‘ کا لقب دیا گیا۔ ان حالات میں یہ ایک بہت بڑا خطرہ مول لینے کے مترادف تھا۔ لیکن انہوں نے جانتے بوجھتے یہ جوکھم اٹھایا جیسا کہ بیعت عقبہ کے موقع سے عبادہ بن نضلہ انصاریؓ کے اظہار خیال سے صاف واضح ہے: ’’گروہ خزرج تمہیں خبر ہے کہ تم ان سے کس چیز پر بیعت کررہے ہو؟ تم ان سے عرب و عجم کی جنگ پر بیعت کررہے ہو! خوب سمجھ لو کہ اس میں تمہاری جائداد یں ضائع ہوں گی اور شرفاء قتل ہوں گے اگر ایسی حالت میں تم نے ان کو چھوڑا تو خدا کی قسم اس میں دین و دنیا دونوں کی رسوائی ہے ۔ اگر تم اپنے عہد پر قائم رہے اور وعدہ پورا کیا تو دین و دنیا دونوں میں یہ سب سے بہتر ہے اور اس کو تم حاصل کرسکتے ہو‘‘(ابن ہشام جلد ۱ صفحہ:۲۴۳-۲۴۴) چنانچہ مدینہ کے اہل ایمان نے نصرت و مدد کا جو عہد اور وعدہ کیا تھا۔ اسے اس خوبی سے نبھایا کہ تاریخ انسانی میں اس کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ لٹے پٹے جو مہاجرین مکہ سے آئے تھے انہیں اپنے پاس ٹھہرایا ۔ اپنا مال بانٹ کر دے دیا۔ جائدادیں بانٹ کر دے دیں ۔ حتیٰ کہ دو بیویاں تھیں تو ایک کو طلاق دے دی کہ دوسرا آنے والا اس سے شادی کرلے ۔ وراثت تک میں حصہ دار بنالیا ’’مؤاخاۃ‘‘ کے نام سے باہم جو بھائی چارہ کرایاگیا تھا اسے نسبی رشتوں پر فوقیت دینے لگے اور ہر مشکل وقت میں سینہ سپر رہے ۔ دشمن کے تمام حملوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور اللہ اور اس کے رسول کے لئے اپنا سب کچھ تج دیا۔ نصرت کا یہ مظاہرہ تھا جس کی بنا پر وہ ’’انصار‘‘ کہلاتے ہیں۔ کیا اللہ کے دین کی اشاعت اور غلبہ کے لئے اس کا عشر عشیر بھی ہمارا تعاون داعیوں اور مبلغوں کو ہوتا ہے؟ پھر ہم کیسے توقع رکھتے ہیں اللہ ہم پر مہربان ہوجائے ؟
’’اتَّبَعُوْہُ فِیْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ‘‘انہوں ے تنگی کے وقت میں اس کی پیروی کی ۔ اس عبارت کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لئے اس آیت کا پس منظر سامنے رہنا ضروری ہے ۔ یہ آیت دراصل غزوہ تبوک کے موقع سے نازل ہوئی تھی جو حق و باطل کے درمیان فیصلہ کن معرکہ تھااس لئے کہ آپؓ نے نفیر عام کرائی تھی اور ہر ایک کی شرکت لازمی قرار دے دی تھی ۔ یہ غزوہ انتہائی تنگ حالی اور پریشانی کے عالم میں پیش آیا تھا ۔ نہ زادِ راہ میسر تھا نہ وسائل مہیا تھے، ایک اونٹ پر باری باری دس لوگ سوار ہوتے اور گٹھلی چوس کر گزارہ کرتے بلکہ ایک موقع پر تو اونٹوں کے آنتوں سے پانی نچوڑ کر پیاس بجھائی گئی ۔ چنانچہ اس موقع سے بہتوں کے ایمان ڈگمگانے لگے تھے بلکہ غیر شرعی عذر کے باوجود کچھ لوگ پیچھے رہ گئے تھے ۔ چنانچہ ان میں سے بعض کو بعد میں اپنی غلطی کا احساس ہو ا تو پیچھے سے جاملے لیکن بعض ٹھہرے رہے تو سماجی بائیکاٹ کی سزا جھیلنے کے بعد ان کی توبہ قبول ہوئی ۔ اس آیت میں اور آگے کی آیات میں انہیں پیچھے رہ جانے والوں کی معافی کا تذکرہ ہے۔ جس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کشمکش حق و باطل میں سستی و کاہلی گرچہ بد نیتی سے نہ ہو لیکن پھر بھی گناہ عظیم ہے اور اس سے توبہ ضروری ہے۔ ہاں بندہ اگر غلطی کا احساس کرے تو اللہ بھی درگزر فرماتا ہے اور دامن عفو میں جگہ دیتا ہے۔
کہہ کے لبیک مغفرت دوڑے
توبہ عاصی اگر کرے دل سے
گویا غلطی سرزد ہو جانے کے باوجود بھی اللہ کی مہربانی اور عنایات کا دروازہ کھلا رہتا ہے بشرطیکہ انسان توبہ کرے۔ لیکن اگر انسان پلٹے ہی نہیں تو اللہ سارے بے نیازوں سے بڑا بے نیاز ہے ۔ توبہ کرے تو آدم ؑ کی طرح مہربانی کا سزا وار قرار پاتاہے، اور توبہ نہ کرے تو شیطان کی طرح راندۂ درگاہ ہوجاتاہے۔ اب یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم کون سا کردار پیش کریں؟ کیاہمیں اللہ کی مہربانی درکار نہیں پھر ’’تُوْبُوْاِلَی اﷲِ تَوْبَۃً نَصُوْحاً‘‘ ہمارا شعار ہونا چاہئے ۔