And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided…(3:103)

احساس ذمہ داری

Posted by:

|

On:

|

وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِىَ لَاۤ اَرَى الْهُدْهُدَ ۖ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَآئِبِيْنَ (20) لَاُعَذِّبَـنَّهٗ عَذَابًا شَدِيْدًا اَوْ لَا۟اَذْبَحَنَّهٗۤ اَوْ لَيَاْتِيَنِّىْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ (21) فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِه وَ جِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍۢ بِنَبَاٍ يَّقِيْنٍ (22) اِنِّىْ وَجَدتُّ امْرَاَةً تَمْلِكُهُمْ وَاُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَىْءٍ وَّلَهَا عَرْشٌ عَظِيْمٌ (23) وَجَدْتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيْلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُوْنَ (24) اَلَّا يَسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِىْ يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِى السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ (25) اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ ۩ (26) قَالَ سَنَـنْظُرُ اَصَدَقْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ (27) اِذْهَبْ بِّكِتٰبِىْ هٰذَا فَاَلْقِهْ اِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانْظُرْ مَاذَا يَرْجِعُوْنَ (28) قَالَتْ يٰۤاَيُّهَا الْمَلَؤُا اِنِّىْۤ اُلْقِىَ اِلَىَّ كِتٰبٌ كَرِيْمٌ (29) اِنَّهٗ مِنْ سُلَيْمٰنَ وَاِنَّهٗ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ (30) اَلَّا تَعْلُوْا عَلَىَّ وَاْتُوْنِىْ مُسْلِمِيْنَ (31)


Quran Ayah Data not found….for Surah:27, Ayah:20 and Translation:93

Quran Surah:27 Ayah:20-31

(ایک اور موقع پر) سلیمان نے پرندوں کا جائزہ لیا اور کہا ’’کیا بات ہے کہ میں فلاں ہدہد کو نہیں دیکھ رہا ہوں؟ کیا وہ کہیں غائب ہوگیا ہے ؟میں اسے سخت سزادوںگا، یااُسے ذبح کردوںگا، ورنہ اسے میرے سامنے معقول وجہ پیش کرنی ہوگی ،کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ اس نے آکر کہا ’’میں نے وہ معلومات حاصل کی ہیں جو آپ کے علم میں نہیں ہیں۔ میں سبا کے متعلق یقینی اطلاع لے کر آیا ہوں،میں نے وہاں ایک عورت دیکھی جو اُس قوم کی حکمراں ہے۔ اُس کو ہر طرح کا سروسامان بخشا گیا ہے اور اُس کا تخت بڑا عظیم الشان ہے ۔میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے سورج کے آگے سجدہ کرتی ہے ‘‘ شیطان نے ان کے اعمال ان کے لئے خوشنما بنادئیے اور انہیں شاہراہ سے روک دیا، اس وجہ سے وہ یہ سیدھا راستہ نہیں پاتے کہ اس خدا کہ سجدہ کریں جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم لوگ چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو۔اللہ کہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، جو عرش عظیم کا مالک ہے۔سلیمان ؑ نے کہا ’’ابھی ہم دیکھے لیتے ہیں کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے۔میرا یہ خط لے جا اور اسے ان لوگوں کی طرف ڈال دے ، پھر ان لوگوں سے الگ ہٹ کر دیکھ کہ وہ کیا ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں۔ملکہ بولی ’’اے اہل دربار! میری طرف ایک بڑا ہم خط پھینکا گیاہے۔ وہ سلیمان کی جانب سے ہے اور اللہ رحمن و رحیم کے نام سے شروع کیا گیا ہے مضمون یہ ہے ’’کہ میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور مسلم ہوکر میرے پاس حاضر ہو جاؤ‘‘۔
ان آیات میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور حکمرانی کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے۔ اس واقعہ سے جہاں سلیمان علیہ السلام کی عظمت اور وسعت حکمرانی کا اندازہ ہوتا ہے وہیں آپﷺ کے ذمہ دارانہ احساس اور ماتحت کے تئیں فکر مندی کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔ ان کے اصول حکمرانی اور مطمح نظر سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔ اس واقعہ کے اندر بہت ساری رہنمائیوں کا سامان ہے چند پہلو ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ حکمرانوں کو ماتحت کا جائزہ لینا چاہئے اور سختی سے لینا چاہئے جیسا کہ سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کا جائزہ لیا اور بلااطلاع غیر حاضر ی پر ہدہد سے سختی سے نمٹنے کا عندیہ دیا اِلاّ یہ کہ معقول عذر ہو تو رعایت دی جاسکتی ہے۔
۲۔ انسان کا دائرہ علم محدود ہے۔ اس سے زیادہ جانکاردوسرا ہوسکتا ہے۔ سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی علم عطا کیا تھا۔ علم وحی کے علاوہ جنوں اور پرندوں و حیوانات کی بولی بھی سکھائی تھی۔ اس کے باوجود آپ علیہ السلام کا علم محدود تھا کامل نہیں، نہ ہی آپ عالم الغیب تھے۔ چنانچہ بغل کی حکومت سبا کے سارے احوال سے آپ آگاہ نہیں تھے۔ ہدہد نے جب آپ کو آگاہ کیا تو باخبر ہوئے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’فَوْقَ کُلَّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ‘‘ ہر جانکار سے اوپر دوسرا جانکار ہے۔ (یوسف:۷۶)
۳۔ جب کوئی خبرا ہم ہو تو ذمہ داروں کو دوسرے ذرائع سے اس کی تصدیق بھی کرنی چاہئے تاکہ یقینی خبر کی بنیاد پر رائے قائم کی جاسکے اور آئندہ کے اقدامات طے کئے جاسکیں جیسا کہ سلیمان علیہ السلام نے ہدہد کی لائی ہوئی اطلاع کی تصدیق کے لئے مراسلت کی یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ اس سے تحریر اور خطوط کو عام معاملات میں حجت اور دلیل بنا سکتے ہیں۔
۴۔ عموماً پرندوں کو قوت مشاہدہ، قوت تمیز اور قوت بیان سے عاری یا کم تر سمجھا جاتاہے حالانکہ اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہدہد کے اندر یہ ساری صلاحیت ہے اور سلیمان علیہ السلام اس کی اس صلاحیت کو حسب ضرورت استعمال بھی کرتے تھے۔ آج بھی جدید تحقیقات کے ذریعہ پرندوں کی حیرت انگیز صلاحیتوں کا انکشاف ہوا ہے ۔ اس بنیاد پر مزید صلاحیتوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے اور ان کی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال بھی کیا جاسکتا ہے ۔ اہل علم کو اس رخ پر بھی آگے بڑھنا چاہئے اور تحقیقات کرنا چاہئے ۔
۵۔ اس واقعہ سے مراسلت کے آداب بھی معلوم ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں درج ذیل پہلو نوٹ کئے جاسکتے ہیں:
الف: سب سے پہلے خط لکھنے والے کا نام ہوناچاہئے۔ اللہ کے رسول ؐبھی اسی طرح لکھتے تھے۔ اس میں احترام مانع نہیں صحابہ کرامؓ بھی اسی اسلوب میں پیارے نبیؐ کو خط لکھتے تھے۔
ب: خط کی شروعات اللہ کے نام سے کرنی چاہئے۔ تاکہ اس کی تائید و نصرت حاصل رہے ۔ رسول اللہ ﷺ پہلے ’’بِاِسْمِکَ اَللّٰھُمَّ ‘‘ لکھا کرتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم ‘‘لکھنا شروع کیا۔
ج: خط کا مضمون مختصر ، دو ٹوک اور واضح ہونا چاہئے
۶۔ حسب ضرورت ذمہ دار اجنبی خواتین سے ملاقات اور گفتگو کر سکتا ہے جیسا کہ سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا سے کیا۔
۷۔ اس واقعہ سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ مسلم حکمراں کا مطمح نظر کیا ہونا چاہئے اگر اس کے پڑوس میں کوئی کفرو شرک میں مبتلا مملکت ہو تو اس کے ساتھ اس کا کیا رویہ ہونا چاہئے ۔ اسے ختم کردینا ، ہڑپ لینا یا اسے کفر و شکر کے دلدل سے نکالنے کی فکر کرنا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو پڑوسی ملک کے حکمراں اور باشندوں کے سورج پرستی میں مبتلا ہونے کا علم ہوا تو آپ نے سب سے زیادہ کس چیز کی فکر کی اور ان سے کیا مطالبہ کیا۔ ’’سرکشی نہ کرو اور مسلمان ہو جاؤ‘‘ آج بھی مسلم حکمرانوں کو اس طرح کی صورت حال میں حضرت سلیمان علیہ السلام جیسا رویہ اپنانا چاہئے یعنی انہیں حق سے آشنا کرانا چاہئے اور انہیں راہ ہدایت پر
لانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *