And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided…(3:103)

کاہلی سے اﷲ کی پناہ

Posted by:

|

On:

|

عَنْ اَنَسِ ابْنِ مَالِکٍؓ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ یَتَعَوَّذُ یَقُوْلُ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْکسْلِ‘‘(رواہ البخاری)


ترجمہ:— حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ آنحضرت ؐیوں پناہ مانگتے ، آپؐ فرماتے ’’یا اللہ! میں سستی سے تیری پناہ مانگتاہوں‘‘

تشریح: — پیارے نبیﷺ نے کاہلی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کی ہے ۔ اپنی ہستی کو قائم رکھنے کے لئے جدوجہد کرنا قدرت کا ایک اٹل قانون ہے ، جو لوگ سعی و کوشش سے گریزاں رہتے ہیں، ان کی ہستی بالکل مٹ جاتی ہے ۔ کارزار ہستی میں عزو وجاہ کی دولت سے وہی شخص مالا مال ہوتا ہے جو محنت و استقلال کے گھوڑے پر سوار ہواور عقل سلیم کی باگ اس کے ہاتھ میں ہو۔ اس کے برعکس بزدلی اور کاہلی اتنی بری لت ہے کہ جس انسان پر یہ سوار ہو جاتی ہے، اس کی مت ماری جاتی ہے ، اسے عضو معطل بنا کر رکھ دیتی ہے، اس کی خفیہ صلاحیتوں کو کھو کھلا کرڈالتی ہے، ہر موڑ پر اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے اور قدم قدم پر وہ غیروں کا دست نگر و محتاج ہو جاتا ہے، بلکہ بسا اوقات ناکامی کا شکار ہونے پر کاہل انسان خود کشی سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں دوسرے رذائل سے پناہ مانگی ہے وہیں یہ دعا بھی مانگی ہے ’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْکَسْلِ‘‘’’اے اللہ میںسستی اور کاہلی سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں‘‘(بخاری)
قدرت و استطاعت کے باوجود کمائی سے جی چرانے والے کاہل لوگوں کے لئے حدیث شریف کے یہ الفاظ

عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَأَنْ يَأْخُذَ أَحَدُکُمْ حَبْلَهُ فَيَأْتِيَ بِحُزْمَةِ الْحَطَبِ عَلَی ظَهْرِهِ فَيَبِيعَهَا فَيَکُفَّ اللَّهُ بِهَا وَجْهَهُ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَسْأَلَ النَّاسَ أَعْطَوْهُ أَوْ مَنَعُوهُ (رواہ البخاری(


’’تم میں سے کوئی شخص کلہاڑی سے لکڑی کاٹ کر گٹھر اپنی پیٹھ پر اٹھا کر لائے اور فروخت کرے اس کے ذریعہ اللہ اس کی حفاظت کرے یہ اس کے لئے بہتر ہے اس سے کہ وہ لوگوں سے مانگے اور لوگ اسے دیں یانہ دیں‘‘۔ یہ قول اس بات کے غماز ہیں کہ کسب معاش کے لئے تگ و دو کرنا ہمارا وطیرہ حیات ہونا چاہئے خواہ اس کے لئے بظاہر کمتر درجے کا ہی کوئی پیشہ کیوں نہ اختیار کرنا پڑے۔

دنیا میں تین قسم کے آدمی ہوتے ہیں ۔ ایک وہ جو سوچتے ہی رہتے ہیں اور کرتے کچھ نہیں دوسرے وہ جو بلا سوچے سمجھے اناپ شناپ ہر طرف ہاتھ پیر مارتے ہیں اور ہر طرف سے منہ کی کھاتے ہیں، تیسرے وہ جو سوچتے بھی ہیں اور کرتے بھی ہیں، یہی خوش قسمت آخر مٹی کو سونا بنا لیتے ہیں۔ دنیا میں ہر بات کا نتیجہ مشتبہ ہوتا ہے سوائے محنت کے، کہ یہ شجر بہر کیف بارآور ہوتاہے۔
سستی اور کاہلی سے کبھی کوئی مشکل آسان ہوئی نہ کوئی معرکہ سر ہوا ۔ ہر بڑے کام کے پیچھے متواتر عرق فشاں کو ششیں کار فرما ہوتی ہیں۔ ایک موقع پر حضرت علی ؓ نے فرمایا :
لَوْ کَانَ ھٰذا الْعِلْمُ یُدْرَکُ بِالْمُنیٰ
لَمَا کَانَ یَبْقیٰ فِی الْبَرِیَّۃِّ جَاھِلُ
فَاجْھَدْ وَلاَ تَکْسَلْ وَلاَ تَکُ غَافِلاً
فَخَسَارَۃُ الْعُقبیٰ لِمَنْ یَتَکَاسَلُ
کہ اگر محض امیدوں سے علم حاصل ہوتا تو روئے زمین پر کوئی ناخواندہ نہیں ملتا ۔ لہٰذا جدوجہد کر، سستی چھوڑ، اور غفلت کا پردہ چاک کر کیوںکہ خسارہ اور نقصان کاہلوں ہی کا مقدر ہوتا ہے۔
سست آدمی ہر معاملہ میں عموماً یہ کہتا ہے کہ ’’چلو دیکھا جائے گا‘‘ یاد رہے اسی ایک جملے نے ہر چیز کے معیار کو ناقص کردیاہے۔ فارسی کا مقولہ ہے ’’کارامروز را بفردا میفگن‘‘ آج کا کام کل پر نہ ٹال۔ یہ مقولہ نہایت جامع اور معنی خیز ہے ، اس ایک جملے پر انسان عمل کرلے تو اس کے اکثر مسائل از خود حل ہو جائیں گے، بہت جلد اس کی زندگی میں حیرت انگیز انقلاب برپا ہو جائے گا اور برسوں کا سفر مہینوں میں طے ہو جائے گا۔ کیونکہ ترقی کی راہ میں انسان کا نفس بہت بڑی رکاوٹ ہے ، جب بھی انسان کسی کامیاب اور بامقصد عمل کی طرف قدم بڑھاناچاہتا ہے تو نفس اسے کھلے عام روکتا ہے بلکہ اس سے کہتا ہے کہ چلو کل کرلینا، اتنی جلدی کیاہے؟ پھر سینکڑوں کل آتے اور چلے جاتے ہیں مگر بہانہ جو نفس کا کل کبھی نہیں آتا۔ اسی لئے عقل مندوں نے کہا ہے ’’جو کام کل کرنا ہے اُسے آج ہی کرڈالو اور جو آج کرنا ہے اسے ابھی شروع کردو‘‘۔
سست اور کاہل آدمی کتنا ہی ذکی الحس اور سریع الفہم ہو، اپنی سستی اور لاپرواہی کی وجہ سے دنیا وآخرت میں نقصان و خسراں اس کا مقدر ہو تا ہے اور سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہیرے جواہرات سے بھی زیادہ قیمتی سرمایہ’’ وقت‘‘ سب سے ارزاں ہو جاتاہے وقت پانی کی طرح بہتا ہوا گزر جاتاہے اور اسے کوئی قلق مطلقاً نہیں ہوتا۔ جبکہ عربی کا مشہور مقولہ ہے : ’’اَلْوَقْتُ اَثْمَنُ مِنَ الَذَّھَبِ‘‘وقت سونے سے بھی زیادہ بیش بہا ہے۔
سب سے زیادہ سنگین پہلو یہ ہے کہ قرآن میں کاہلی منافقین کی علامت قرار دی گئی ہے کہ جیسا ارشاد ربانی ہے ’’وَاِذَا قَامُوْا اِلَی الصَّلوٰۃِ قَامُوْا کُسَالیٰ‘‘ (النسائ: ۱۴۲) ’’جب یہ نماز کے لئے اٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے ‘‘۔
کیا اس زمرے میںشمار کیا جانا ایک مومن کو زیب دیتا ہے ۔ پھر ہم غور کریں ہم کہاں کھڑے ہیں؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *