And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided…(3:103)

تعلیمی انقلاب کا چارٹر

Posted by:

|

On:

|

حضرت علقمہ بن سعدؓ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز خطبہ دیا تو مسلمانوں کے کچھ گروپوں کی تحسین فرمائی پھر فرمایا :’’ان لوگوں کو کیا ہوا ،جو اپنے پڑوسیوں کو دین اور علم نہیں سکھاتے ، نہ انہیں نصیحت کرتے ہیں نہ انہیں (بھلائی کی ) ہدایت اور (برائی سے ) روک تھام کرتے ہیں خدا کی قسم کچھ لوگ اپنے پڑوسیوں کو علم ودین سکھائیں، انہیں نصیحت اور امر و نہی کریں اور (ناواقف) لوگ اپنے پڑوسیوں سے علم و دین سیکھیں اور نصیحت حاصل کریں ورنہ میں انہیں جلد سزا دوں گا‘‘ یہ فرما کر آپ (منبر سے ) اتر آئے لوگ سوال کرنے لگے کہ آپﷺ کی مراد کن لوگوں سے تھی؟ کسی نے کہا اشعری لوگ مراد ہیں جو خود تو دین کی سمجھ رکھتے ہیں لیکن ان کے دیہاتی پڑوسی اَن پڑھ ہیں۔ یہ بات اشعریوں کو معلوم ہوئی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ آپ نے کچھ لوگوں کا ذکر خیر کیا اور ہمیں برائی سے یاد فرمایا ہم سے کیا خطا ہوئی؟ آپﷺ نے فرمایا : ’’کچھ لوگ اپنے پڑوسیوں کو علم سکھائیں، انہیں نصیحت کریں اور(بھلائی کی) ہدایت اور (برائی کی ) روک تھام کریں او رکچھ لوگ اپنے پڑوسیوں سے علم سیکھیں، دین کی سمجھ پیدا کریں اور نصیحت حاصل کریں ورنہ دنیا ہی میں انہیں جلد سزادوں گا۔ اشعریوں نے پھر وہی سوال کیا ، آپﷺ نے پھر اپنی بات دہرائی تب اشعریوں نے عرض کیا، آپ ﷺ ہمیں ایک سال کی مہلت عطا فرما دیں آپﷺ نے انہیں علم و دین سکھانے اور نصیحت کرنے کے لئے ایک سال کی مہلت عطا فرما دی پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی

لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِىْۤ اِسْرَآءِيْلَ عَلٰى لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذٰ لِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ (78) كَانُوْا لَا يَتَـنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ (79)


Quran Ayah Data not found….for Surah:5, Ayah:78 and Translation:93

Quran Surah:5 Ayah:78-79

بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان پر داؤد اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی کیوں کہ وہ سرکش ہوگئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے انہوں نے ایک دوسرے کو بُرے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا۔ براطرزِ عمل تھا جو انہوں نے اختیار کیا ۔ (طبرانی)

اس حدیث میں تعلیم و تعلم سے متعلق بہت سی ہدایات دی گئی ہیں۔ یہ ہدایات دراصل تعلیمی انقلاب کا چارٹر اور نسخہ ہیں۔ آج بھی اس نسخہ کو استعمال کرکے عظیم تعلیمی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ ذرا ان اصولوں کو ملاحظہ فرمائیں:
(۱) امت کے تعلیم یافتہ طبقے کی ذمہ داری ہے کہ وہ جاہلوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں۔ اگر وہ غفلت برتیں تو قابل مؤاخذہ ہیں چنانچہ ہمارے اسلاف اس حقیقت کو خوب سمجھتے تھے اور اپنا فرض پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے شاگرد رشید عکرمہ ؒ کا بیان ہے کہ ’’ایک مرتبہ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے میرے پاؤں میں بیڑی ڈال دی تھی تاکہ میں کہیں آجانہ سکوں اور قرآن و حدیث و شریعت کے احکامات سے آگاہی حاصل کرلوں ‘‘ (حکایات صحابہ بحوالہ بخاری وطبقات ابن سعد صفحہ:۱۷۵)
اسی طرح مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حاکم وقت نے ان کو جیل میں ڈال دیا وہاں ان کا ایک قیدی ساتھی تھا جو قرآن پڑھنا نہیں جانتا تھا۔ مولانا نے اسے قرآن پڑھاناشروع کردیا ۔ کچھ عرصہ بعد آپ کی رہائی کا آرڈ ر آگیا لیکن آپ نے گھر جانے سے انکار کردیا ۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نے پوچھا کیوں؟ تو آپ نے جواب دیا ’’میں نے قیدی ساتھی کو قرآن پڑھانا شروع کیاہے۔ ابھی تک آدھا ہوا ہے جب تک پورا مکمل نہیں ہوجاتا میں نہیں جاؤں گا‘‘۔ چنانچہ آپ جیل میں ٹھہرے رہے اور قیدی کو قرآن مکمل پڑھانے کے بعد گھر تشریف لائے۔
(۲) جاہلوں کے اوپر لازم ہے کہ وہ تعلیم یافتہ حضرات سے علم حاصل کریں۔ اگر وہ اس میں کوتاہی کریں گے۔ تو ان کی بھی گرفت کی جائے گی۔ دنیا وآخرت کا خسارہ تو الگ ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ ہی کے سلسلے میں آتا ہے کہ جب پیارے نبیﷺ اللہ کو پیارے ہوگئے تو انہوں نے ایک انصاری صحابی سے کہا ’’اللہ کے رسول ﷺ تو وفات پاگئے مگر ان کے اصحاب زندہ ہیں چلو ان سے تحصیل علم کریں‘‘ انصاری صحابی نے کہا ’’اے ابن عباسؓ ! تم پر حیرت ہے تم دیکھتے ہو کہ لوگ علم میں خود تمہارے محتاج ہیں پھر تم دوسروں کے پاس جاتے ہو۔ عبداللہ ابن عباسؓ نے انصاری صحابی کا یہ جواب سن کر انہیں چھوڑ دیا اور تنہا جہاں کہیں پتہ چلتا کہ فلاں شخص نے رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث سنی ہے ۔ فوراً مشقت اٹھا کر اس کے پاس پہنچتے ۔ اس کے دروازے پر لیٹ جاتے گردو غبار میں اٹ جاتے جب وہ نکلتا تو دیکھتا اور پوچھتا کہ آپ کس غرض سے تشریف لائے ، جب آپ کہتے کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث سنی ہے اسے معلوم کرنے حاضر ہوا ہوں تو وہ کہتے اے رسول اللہ کے چچا زاد بھائی ! آپ نے کیو ںزحمت اٹھائی کسی دوسرے کو بھیج دیا ہوتا یا خبردی ہوتی میںخود حاضر ہو جاتا۔ آپؓ کہتے ہیں یہ میر ا فرض تھا اس لئے میں حاضر ہوا۔ اس طرح عبداللہ بن عباسؓ نے گھوم گھوم کر ایک ایک دانہ چن چن کر علم کے خزانہ سے اپنا دامن بھرا اور جہان علم میں آفتاب بن کر چمکے چنانچہ جب آپؓ کے فضل و کمال کا چرچا ہونے لگا تو اس وقت ان انصاری صحابی نے جنہوں نے ساتھ چلنے سے انکار کردیا تھا ندامت کے ساتھ اعتراف کیا کہ یقینا عبداللہ بن عباسؓ ہم سے زیادہ عقل مند تھے ۔(سیر الصحابہ: جلد۳ صفحہ:۲۵۹)
اسی طرح علامہ ابن تیمیہؒ کے حوالے سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ حاکم وقت نے انہیں جیل بھیج دیا تو ان کا ایک شاگرد روتے ہوئے حاکم وقت کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس سے درخواست کی کہ مجھے جیل بھیج دیں ۔ حاکم وقت نے یہ عجیب سا مطالبہ سنا تو حیرت میں پڑ گیا اور پوچھا کہ بھائی! آپ کیوں جیل جانا چاہتے ہیں؟ اس نے کہا ’’جناب! آپ نے میرے استاد کو جیل میں ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے کتنے ہی دنوں سے میرے سبق کا ناغہ ہورہاہے اگر آپ مجھے جیل بھیج دیں تو کچھ مشقتیں اور صعوبتیں ضرور اٹھانی پڑیں گی مگر اپنے استاد سے سبق تو پڑھ لیا کروں گا‘‘ یہ تھی علمی پیاس اور علم کے لئے جتن، ظاہر ہے جو فرض سمجھتا ہو وہی اتنی مشقت اٹھا سکتا ہے۔
(۳) کسی بھی کام کو مکمل کرنے کے لئے ٹارگٹ اور مدت متعین ہونی چاہئے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے جہالت کے خاتمہ کے لئے یا سیکھنے اور سکھانے کے عمل کو مکمل کرنے کے لئے ایک سال کی مہلت دی تھی۔ آج بھی تعلیمی مہمات کو سر کرنے کے لئے ٹارگٹ اور مدت متعین کرنی چاہئے تاکہ منصوبوں کو پایہ تکمیل تک بآسانی پہنچایا جاسکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *