عَنْ عُثْمَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ ﷺ ’’خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ‘‘ (رواہ البخاری جلد۲ ابواب فضائل القرآن)
ترجمہ: حضرت عثمان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم میں سب سے بہتر اور افضل بندہ و ہ ہے جو قرآن کا علم حاصل کرے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دے ‘‘۔
درج بالا حدیث بخاری میں ہی ایک دوسری جگہ ان الفاظ میں منقول ہے :’’اِنَّ اَفْضَلَکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآن وَ عَلَّمَہٗ‘‘جب کہ ترمذی نے اسی مفہوم کی ایک حدیث ان الفاظ میں روایت کی ہے: ’’خَیْرُکُمْ اَوْ اَفْضَلُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ‘‘ (ھذاحدیث حسن صحیحٌ)ترمذی جلد۲ صفحہ ۱۱۸، ابواب فضائل القرآن ۔
تشریح: ’’خَیْرُکُمْ‘‘ خیر اسم ہے خار یخیر خیراً سے جس کے معنی ہیں ’’صاحب خیر ہونا‘‘ ۔ ’’خیر ‘‘اس نیکی یا بھلائی کو کہتے ہیں جو اپنے کمال کو پہنچ جائے۔ اس کی جمع ’’خیور‘‘ آتی ہے۔
خیر اسم تفضیل کا صیغہ ’’اَخْیَرْ‘‘کا مخفف ہے اور اس کی مونث ’’خَیـْرَۃٌ‘‘آتی ہے۔ کہا جاتاہے ’’فلان خَیْرۃُ الناس وَ خَیْرُھُمْ‘‘(فلاں لوگوں میں سب سے بہتر اور سب سے افضل ہے )(مصباح اللغات صفحہ:۲۲۵-۲۲۴)
حدیث مذکور میں واضح طور پر ان لوگوں کو سب سے بہتر اور افضل لوگ قرار دیا گیا ہے جو اللہ کے پاک کلام کوسیکھنے سکھانے میں مشغول رہتے ہیں۔
قرآن و حدیث میں متعدد جگہوں پر ان اہل ایمان کی تعریف کی گئی ہے اور انہیں صاحب فضیلت قرار دیا گیاہے جو کتاب ہدایت کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔
’’قُلْ ھَلْ یَسْتَویْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ‘‘(سورۃ الزمر:۹)(اے نبی کہہ دیجئے کیا وہ لوگ جو (قرآن کا ) علم رکھتے اوروہ جو نہیں رکھتے برابر ہوسکتے ہیں‘‘ دوسری جگہ ارشاد فرمایا
وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَآبِّ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَ لْوَانُهٗ كَذٰلِكَ اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ (28)
Quran Ayah Data not found….for Surah:35, Ayah:28 and Translation:93
Quran Surah:35 Ayah:28
’’بے شک اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو اہل علم ہیں‘‘۔
مذکورہ بالا آیات میں وہ لوگ جو کتاب ہدایت کا علم رکھتے ہیں انہیں بجا طور پر دوسروں سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ البتہ اس علم کا عمل سے متصف ہونا ضروری ہے۔
پیارے نبیﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اَلْمَاھِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرۃِ الکِرَامِ البَرَرَۃِ وَ الَذِّیْنَ یَتَتَعْتَعُ فِیْہَ وھُوَ عَلَیہِ شَاقٌ لَہٗ اَجْرَانِ‘‘ (مسلم، ترمذی ، ابوداؤد ) قرآن کا ماہر (قیامت کے دن) فرمانبردار بزرگ فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو شخص قرآن کو اٹک اٹک کر مشقت سے پڑھے اس کو دہرا ثواب ملے گا۔
قرآن کے ماہر کا مطلب ہے کہ وہ شخص پوری صحت وآداب کے ساتھ تلاوت پر قادر ہو۔ اعلیٰ درجے کا حافظ قرآن ہو۔ اس کے معنی و مطالب کو سمجھتا اور اس میں غور و فکر کرتا ہو۔ روز مرہ کے مسائل قرآن کی روشنی میں حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، یہ سارے مفہوم حدیث میں شامل ہوسکتے ہیں۔ ایسے شخص کا رتبہ قیامت کے دن نہایت اعلیٰ ہوگا وہ اللہ کے خاص مقربین میں شامل ہوگا۔ اسی طرح وہ شخص بھی اللہ کی خاص توجہ کا مستحق ہے جس کی زبان میں لکنت ہے لیکن وہ مشقت سے گھبرا کر تلاوت چھوڑنہیں دیتا بلکہ ہزار دقتیں برداشت کرکے بھی کتاب ہدایت کی تعلیم حاصل کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔
’’تَعَلُّمْ‘‘کے معنی ہیں سیکھنا۔ تلاوت قرآن اور ناظرے کی تعلیم لینا، تجوید سیکھنا، حفظ کرنا معنی و مفہوم کی تعلیم حاصل کرنا، قرآنی علوم پر مہارت حاصل کرنا وغیرہ یہ سارے معانی اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح ’’عَلَّمَ: عَلَّمَہٗ تَعْلِیْماً وعِلاّماً الصنعۃ وغیرھا‘‘(مصباح اللغات:۵۷۳) سکھانا۔یعنی تعلیم دینا کے مفہوم میں بھی ناظرہ پڑھانا، معنی و تشریح کی تعلیم دینا، مسائل کے استنباط کے اصول بتانا، قرآنی تعلیمات کو عام کرنا وغیرہ تمام معانی شامل ہیں اور جو لوگ بھی قرآن پاک کی خدمات اور اس کی تعلیم و تعلم سے جڑے ہوئے ہیں ان کے بارے میں ارشاد نبوی ہے:
’’وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِیْ بَیْتٍ مِنْ بُیْوتِ اﷲِ یَتْلُوْنَ کِتَابَ اﷲِ وَ یَتَدَارَسُوْنَہٗ بَیْنَھُمْ اِلاَّ نَزَلَتْ عَلَیْھمْ الْسَکِیْنَۃُ وَ غَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ وَ حَفّتْھُمُ الْمَلَائِکَۃُ وَ ذَکَرَھُمُ اﷲُ فِیْمنْ عِنْدَہٗ‘‘
(مسلم ، ترمذی) اور جب کچھ (اہل ایمان) لوگ اللہ کے کسی گھر میں قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور باہم مل کر پڑھتے پڑھاتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے ، رحمت خداوندی انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ ان کا ذکر اپنے مقرب فرشتوں کے درمیان کرتا ہے ۔
قرآن حکیم، کتاب ہدایت اور اسلام کی اساس ہے، اجتماعی طور پر اس کی تلاوت کرنے اور اس کے معانی و مطالب میں غور و فکر کرنے اور اس سے انسانی مسائل کے حل تلاش کرنے والوں کا رتبہ اللہ کے نزدیک اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ :
(۱) اللہ ان کے دلوں کو قرار و سکون عطا کرتا ہے ۔ (۲) رحمت خداوندی انہیں اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ (۳) اللہ کے فرشتے آکر ان کو اپنے پروں میں ڈھانپ لیتے ہیں۔(۴) اور اللہ ان کا ذکر اپنے مقرب فرشتوں میں کرتا ہے کہ دیکھو میرے بندے میری کتاب کی تلاوت اور اس میں غور و فکر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
ایک دوسری حدیث میں ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو شخص قرآن میں مشغول ہونے کی وجہ سے نہ تو میرا ذکر کرسکے اور نہ (وہ مجھ سے اپنی ضروریات کیلئے) سوال کرسکے تو میں اسے سوال کرنے والوں سے بڑھ کر عطا کروں گا ۔(ترمذی -ابواب القرآن )
مذکورہ تشریحات کی روشنی میں جو بات کھل کر سامنے آتی ہے وہ یہ کہ مسلمانوں میں وہ شخص سب سے بہتر، عمدہ اور افضل ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے اور اس کی درج ذیل شکلیں ہوسکتی ہیں:
(۱) ناظرہ قرآن کی تعلیم حاصل کرتا ہے ، اسے تجوید کے ساتھ پڑھنے کا ڈھنگ سیکھتا ہے۔(۲)اس کی تلاوت کرتا اور اسے حفظ کرتا ہے۔(۳)اس کے معنی و مفہوم سے آگاہی حاصل کرتاہے۔(۴)اپنی روز مرہ کی زندگی میں قرآن سے روشنی حاصل کرتا ہے۔ (۵)قرآنی علوم پر دسترس حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے ۔وغیرہ۔(۶) تعلیمات قرآنی کا عملی پیکر بننے کی حتی الامکان سعی و کاوش کرتا ہے ۔وغیرہ
اسی طرح وہ شخص بھی لوگوں میں سب سے بہتر ، عمدہ اور افضل ہے جو :
(۱)لوگوں کو ناظرہ پڑھاتا ہے۔ تجوید سکھاتاہے۔ (۲)لوگوں کو حفظ کراتا اور اس کے معانی و مطالب کی تعلیم دیتا ہے۔ (۳) قرآنی علوم کو عام کرتا اور لوگوں کو اس پر عمل کی دعوت دیتا ہے۔(۴)قرآنی آیات و پیغامات کا مذاکرہ کرتااور مل بیٹھ کر اس سے عملی زندگی میں روشنی حاصل کرنے کا سبق دیتا ہے۔ (۵)سماج میں کسی بھی انداز سے قرآنی آیات و علوم کی ترویج و اشاعت کے لئے کوششیں کرتاہے۔
قرآن مجید کے سیکھنے اور سکھانے کی افضیلت یقینا انہی لوگوں کے لئے ہے جو علم کے ساتھ ساتھ اس کی تعلیمات پر خود بھی خلوص دل کے ساتھ عمل کرتے ہیں اور ہدایت کی طلب میں اس کی جانب رجوع کرتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو قرآن کی تعلیم و تعلم سے دور ہیں اور اس کی تعلیمات پر عمل سے خالی ہیں تو ان کے لئے وعید ہے کہ ’’وَمَنْ یَّطأَبِہٖ عَمَلُہٗ لَمْ یُسْرِعْ بِہٖ نَسَبُہٗ‘‘ یعنی خواہ وہ کتنا ہی عالی نسب ہو اگر تعلیمات قرآنی سے اس کی زندگی دور ہے تو وہ دنیا کی بھیڑ میں گم ہو جائے گا لیکن نسب اسے کوئی فائدہ نہیں دے گا(مسلم، ترمذی)
لمحہ فکریہ: ایک طرف قرآن سیکھنے سکھانے والے کو امت کا سب سے بہترین فرد کہا گیا ہے اور دوسری طرف یہ ایک سنگین حقیقت ہے کہ امت کا ایک بہت بڑا طبقہ ناظرہ قرآن کی تعلیم سے بھی دور ہے جبکہ انہیں ناظرہ پڑھانے والے اس عظیم کام کو حقیر جان کر اس جانب توجہ نہیں کررہے ہیں۔ یہ رجحان انتہائی خطرناک ہے اور جس طرح سے قرآن کو سیکھنے سکھانے والے سب سے افضل قرار دئیے گئے اس سے معنی معکوس یہ نکلتاہے کہ جو لوگ بھی اس جانب سے ضرورت ہونے کے باوجود اعراض کرتے ہیں وہ امت کے پست ترین لوگ ہیں۔ اللہ ہمیں قرآن سیکھنے سکھانے اور اس کی ترویج و اشاعت کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین