And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided…(3:103)

زوالِ امت کے حقیقی اسباب

Posted by:

|

On:

|

قَالَ رَسُولُ اﷲِ ﷺ ’’یُوْشِکُ الْاُمَمُ اَنْ تَدَاعیٰ عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعیٰ الْاَکَلَۃُ اِلیٰ قَصْعَتِھَا فَقَالَ قَائِلٌ وَمِنْ قِلَّۃٍ نَحْنُ یَوْمَئِذٍ؟— قَاَ بَلْ اَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیْرٌ وَلٰکِنَّکُمْ غُثَآئٌ کَغُثَآئٍ السَّیْلِ وَ لَیَنْزِعَنَّ اﷲُ مِنْ صُدُوْرِعَدُوِّکُمُ الْمَھَابَۃَ مِنْکُمْ وَ لَیَقْذِفَنَّ اﷲُ فِیْ قُلُوْبِکُمُ الْوَھْنَ فَقَالَ قَائِلٌ یَا رَسُوْلَ اﷲِ وَ مَا الْوَھْنُ؟ قَالَ حُبُّ الدُّنْیَا وَ کَرَاھِیَّۃُ الْمَوْتِ‘‘
(ابوداؤد عن ثوبان کتاب الملاحم)


ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’عنقریب غیر مسلم قومیں تمہاری سرکوبی کے لئے ایک دوسرے کو بلائیں گی اور (پھروہ سب مل جل کر ) دھاوا بول دیں گی جیسا کہ بہت سے کھانے والے افراد ایک دوسرے کو بلا کر دستر خوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں ایک آدمی نے عرض کیا حضور کیا اس وقت ہماری تعداد تھوڑی ہوگی؟ آپﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ اس وقت تم تعداد میں کثیر ہوگے لیکن تمہاری حیثیت سیلاب کے کوڑا کرکٹ اور جھاگ سے زیادہ نہ ہوگی اس وقت اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہوگا کہ دشمن قوموں کے دل سے تمہارا رعب ختم ہو جائے گا اور تمہارے دل ’’وھن‘‘ کا شکار ہو جائیں گے کسی نے پوچھا یا رسول اﷲ’’وھن‘‘ کسے کہتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا ’’دنیا سے محبت اور موت سے نفرت‘‘۔

اس حدیث میں امت کے زوال کے حقیقی اسباب پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ لیکن اسباب بتانے سے پہلے کچھ غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کیا گیاہے۔
عموماً ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ مسلمان اقلیت میں ہیں (وَمِنْ قِلَّۃٍ نَحْنُ یَوْمَئِذٍ) ان کی تعداد کم ہے۔ اس لئے اکثریت نے ان کو دبالیا ہے اور وہ زوال کاشکار ہوگئے ہیں۔ لیکن یہ حدیث بتاتی ہے کہ تعداد کم زیادہ ہونے کا یا اقلیت و اکثریت کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔کثرت میں ہوتے ہوئے بھی مغلوب ہوسکتے ہیں اگر ان بنیادی خوبیوں اور صلاحیتوں سے محروم ہوں جن کے ذریعہ رعب و دبدبہ قائم ہوتا ہے اور غلبہ حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر وہ خوبیاں اور صلاحیتیں پیدا کرلیں تو کم تعداد میں ہوتے ہوئے بھی اور اقلیت کہے جاتے ہوئے بھی غالب آسکتے ہیں۔ہندوستان پر مسلمانوں اور انگریزوں کا غلبہ اس کی واضح مثالیں ہیں۔
دوسری غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ انسان کا وزن اس وقت بنتا ہے جب اسے دنیا حاصل ہو ۔ دنیا کا ساز و سامان اسے میسر ہو ۔ چنانچہ انسان دنیا حاصل کرنے کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے اور اسی کے پیچھے بھاگا چلا جاتا ہے۔ لیکن یہ حدیث یہ بتاتی ہے کہ دنیاکی محبت میں مبتلا ہونے سے انسان کاوزن بڑھتا نہیں بلکہ گھٹتا ہے کیونکہ انسان دنیا کاہی ہوکر رہ جاتاہے۔ دوسری چیزوں سے غافل ہو جاتاہے۔ اس کے اندر اخلاقی خرابیاں پیداہو جاتی ہیں وہ بخیل و حریص بن جاتاہے۔ وہ سخت دل اور ظالم بن جاتاہے۔ وہ عیش پسند اور آرام طلب ہو جاتاہے۔ چنانچہ اللہ کے راستے میں جہادسے کتراتا ہے۔ اس لئے دشمنوں کے دلوں سے ان کاخوف ختم ہو جاتاہے۔اس کے برخلاف اللہ کا خوف ہو ،آخرت کی طلب ہو تو انسان دنیاسے بے نیاز ہو جاتاہے۔ اس کے اندر جرأت و ہمت پیدا ہو جاتی ہے وہ اخلاق و کردار کا پیکر بن جاتاہے۔ چنانچہ دنیا والے اس سے خوف کھانے لگتے ہیں۔ لہٰذا دنیا کی ترقی کو معیار سمجھنے کے بجائے آخرت کی کامیابی کو اصل معیار سمجھنا چاہئے اور اس کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے ۔
اس حدیث میں ایک حقیقت یہ بھی سمجھائی گئی ہے کہ بظاہر دشمنان اسلام الگ الگ نظر آتے ہیں ۔ ان کے مختلف گروہ اور جماعتیں منظر پر ہوتے ہیں لیکن اسلام دشمنی میں سب ایک ہیں (اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَاحِدَۃٌ) اور ایک جٹ ہوکر اقدام کرتی ہیں اور کرسکتی ہیں (یُوْشِکُ الْاُمَمُ اَنْ تَدَاعیٰ عَلَیْکُمْ …) لہٰذا انہیں کبھی متفرق اور چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ انہیں ایک سمجھ کر اپنا لائحہ عمل طے کرنا چاہئے ۔ آج اہل ایمان کے خلاف دنیا بھر کی اسلام دشمن قوتیں جس طرح متحد ہیں ۔ اس کی روشنی میں اس حقیقت کو سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں۔
’’وَھْنُ‘‘کی تعریف کرتے ہوئے ’’حُبُّ الدُّنْیَا‘‘ کے ساتھ ’’ کَرَاھِیَّۃُ الْمَوْتِ‘‘کا اضافہ ایک اہم حقیقت کو سمجھانے کے لئے ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ آخر انسان موت کو کیوں ناپسند کرتا ہے۔ اسی لئے کہ وہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ بلکہ ہمیشہ رہنا چاہتا ہے اور اس سے لطف اٹھاناچاہتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ ایسی چیزوں سے بھاگتا اور کتراتا ہے جس میں موت آسکتی ہو، لہٰذا وہ بزدلی کا مظاہرہ کرتا ہے اور دشمن کے ہر دباؤ کو قبول کرلیتا ہے حالانکہ مظلومی اور غلامی کی زندگی بے لطف ہوتی ہے ۔ ایسے میں صاحب عقل و دانش کو سوچنا چاہئے کہ موت تو یقینی ہے کیوں اس سے گھبرایا جائے ۔ کیوں نہ حق پر قائم رہا جائے، اور حق کی خاطر سب کچھ قربان کرکے اس دن کی کامیابی حاصل کی جو ہمیشہ ہمیش کی کامیابی کی ضامن ہے۔
چنانچہ ایسا تصور رکھنے والا ہر قربانی اور جہاد کا حوصلہ پاتاہے اور اس کی خاطر سب کچھ قربان کرکے اپنی مراد حاصل کرتاہے جو یہ جذبہ پالے اسے بڑی قوت حاصل ہو جاتی ہے ۔وہ کسی سے نہیں ڈرتا اور سب اس سے ڈرتے ہیں اور اسی جذبے سے اس کا رعب قائم ہوتا ہے۔جسے حدیث میں ’’اَلْمَھَابَۃَ‘‘سے تعبیر کیا گیاہے ۔ آج پھر اس جذبہ کی آبیاری کے لئے جہاد و اجتہاد کی روح پھونکنے کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *