عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ’’اَلْاِیْمَانُ بِضَعٌ وَّ سَبْعُوْنَ شُعْبَۃً فَأَفْضَلُھَا قَوْلٌ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ وَ اَدْنَاھَا اَمَاتَۃُ الْاَذَیٰ عَنِ الْطَّرِیْقِ وَالْحَیَائُ شُعْبَۃٌ مِنَ الْایْمَانِ‘‘۔(رواہ البخاری)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ایمان کی ستر سے بھی کچھ اوپر شاخیں ہیں ، اور ان میں سب سے اعلیٰ اور افضل تولا الہ الا اﷲ کا قائل ہونا یعنی توحید کی شہادت دینا ہے ، اور ان میں ادنیٰ درجے کی چیز اذیت اور تکلیف دینے والی چیزوں کا راستے سے ہٹانا ہے اور ’’حیائ‘‘ ایمان کی ایک اہم شاخ ہے ۔
تشریح: اس حدیث میں ایمان کا سب سے اعلیٰ شعبہ ’’لاالہ الا اﷲ‘‘ کو بتلایا گیا، اس کے مقابلے میں ادنیٰ درجے کی چیز راستے سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹانے کو قرار دیا ہے ۔ حدیث کے آخر میں ’’حیا‘‘ کے متعلق خصوصیت سے اس لئے ذکر فرمایا کہ انسانی اخلاق میں حیا کا مقام بہت بلند ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’لِکُلِّ دِیْنٌ خُلْقٌ وَ خُلْقُ الْاِسْلاَمِ اَلْحَیَائُ‘‘ہر دین کا اخلاق ہوتاہے اور اسلام کا اخلاق ’’حیا‘‘ ہے (ابن ماجہ)
انسان کی اصل جبلت و فطرت میں ’’حیا ‘‘ ہے، یہی وہ طاقت ہے جو انسان کو معاصی و منکرات سے روکتی ہے اور اخلاق رذیلہ سے بچا کر اخلاق حسنہ سے روشناس کرواتی ہے۔ اگر وہ کبھی جبلت حیوانی کے غلبے سے کوئی برا فعل کرگزرتا ہے تو یہی چیز اس کے دل میں کچوکے لگاتی ہے اور وہ اپنے کئے پر شرمندہ و پشیماں ہوتا ہے۔ خالق کائنات نے دوسرے حیوانات میں شرم و حیا کا وہ مادہ نہیں رکھا جو انسان کی فطرت میں رکھاگیا ہے، اس لئے حیوانات اپنے جسم کے کسی حصے کو اور اپنے کسی فعل کو چھپانے کی وہ کوشش نہیں کرتے جو انسان کرتا ہے جس کے لئے وہ اپنی فطرت سے مجبور ہے۔ اگر کسی انسان کی جبلت و فطرت میں حیا نام کی چیز نہ ہو، اس سے شرم و حیا رخصت ہو جائے تو اسے گناہوں سے نفرت کے بجائے محبت ہو جاتی ہے ، اسے نہ تو کسی کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ کسی سے شرماتاہے ۔ وہ ایسا بے شرم ہو جاتاہے کہ بے چاری ’’شرم‘‘ ہی اس سے شرماتی ہے شاید اسی وجہ سے فارسی مقولہ مشہور ہے کہ ’’بے حیا باش و ہرچہ خواہی کن‘‘ بے شرم ہو جا اور جو چاہے کر۔ یہ دراصل پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی ترجمانی ہے ’’اِذَا لَمْ تَسْتَحْیٍ فَاصنَعْ مَا شِئْتَ‘‘ کہ جب تیرے اندر حیا ہی نہ رہی تو تو جو چاہے کرگزر۔لہٰذا اسلام میں بے حیائی اور بے شرمی کے کاموں کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اسلامی اخلاقیات میں ’’حیا‘‘ کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ زندگی کا کوئی شعبہ اس سے چھوٹا ہوا نہیں ہے۔
(۱) شکل و صورت اور لباس و وضع میں عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے۔ (بخاری)
(۲) کسی انسان کو عریاں ہونا جائز نہیں، اسی طرح مردوں اور عورتوں کا برہنہ یا نیم برہنہ ہونا، ایک دوسرے کی ستر کو دیکھنا جائز نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’مرد دوسرے کے ستر کی طرف اور عورت کسی دوسری عورت کے ستر کی طرف نظر نہ کرے ‘‘(مسلم)
(۳) چست یا نیم عریاں باریک لباس پہننا جس سے اعضائے جسم جھلکتا ہو عورتوں کے لئے درست نہیں ہے، ایسے لباس پہننے والی عورتوں کے لئے قیامت کے دن جنت میں کوئی جگہ نہ ہوگی۔ حدیث میں ہے ’’جو عورتیں کپڑے پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں، لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں، مردوں کی طرف متوجہ رہتی ہیں، ان کے سر بختی اونٹ کے ٹیڑھے کوہان کی طرح ہیں، وہ نہ تو جنت میں جائیں گی اور نہ اس کی خوشبوپائیں گی ‘‘(بخاری)
(۴) کسی اجنبی اور غیر محرم سے تنہائی اور خلوت میں ملنا ، ساتھ میں گھومنا، بے حجاب باتیں کرنا جائز نہیں ہے، اس لئے کہ جب کوئی مرد تنہائی میں کسی عورت سے ملتا ہے تو شیطان ان کو معصیت میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ حضرت عمر فاروق ﷺ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ ’’کوئی مرد کسی (نامحرم) عورت سے تنہائی میں ہرگز نہ ملے ورنہ تیسرا شیطان ہوگا ‘‘(ترمذی )
(۵) عورتوں کا اجنبی مرد اور مرد کا کسی نامحرم عورت پر بری نظر ڈالنا جائز نہیں۔ بد نظری زنا کی پہلی سیڑھی ہے ، اس سے بڑے فتنوں کا دروازہ کھلتا ہے ۔ اس لئے بدکاری اور بے حیائی کے دروازہ کو بند کرنے کے لئے مسلمان مردوں عورتوں کو حکم دیا گیا کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص کسی اجنبی عورت پر شہوت کی نظر ڈالے گا قیامت کے دن اس کی آنکھوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔ آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، پارکوں، تفریح گاہوں ، میلوں اور بازاروں میں عورتیں کس طرح کھلے سر گھومتی اور اپنے حسن کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ عریاں پسند صاحبزادیوں کی نگاہ میں پاکدامنی اور شرم و حیا دقیانوسی نظام ہے ، اس لئے وہ بے حیائی ، بدکاری اور عیاشی کے مشغلوں کو پسند کرتی ہیں۔ بڑے رنج و افسوس کے ساتھ اعتراف کرناپڑتا ہے کہ ہماری خواتین چست و باریک لباس پہننے ، بے حیائی اور فیشن میں کسی بگڑی قوم سے پیچھے نہیں ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ مسلم قوم کو دین کی سمجھ عطا فرمائے آمین ۔