And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided…(3:103)

سائل کا حق

Posted by:

|

On:

|

Quran#93|10|ur#

’’اور رہے سوال کرنے والے تو اسے نہ جھڑکو‘‘۔
اس آیت میں بظاہر خطاب رسول اللہ ﷺ سے ہے لیکن یہ حکم صرف آپﷺ تک محدود نہیں بلکہ آپ کے واسطے سے ہر فرد مخاطب ہے ۔لہٰذا ہر ایک اس حکم کی بجاآوری کا مکلف ہے ۔آپ سے خطاب صرف نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ہے۔
سائل مانگنے والے اور پوچھنے والے کو کہتے ہیں۔ کیا چیز مانگے اس کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کوئی بھی چیز ہوسکتی ہے۔ البتہ مانگنے والااسی وقت مانگتاہے جب اسے کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ محتاج ہے ۔ ضرورت مند ہے۔ احتیاج کسی طرح کی ہوسکتی ہے ۔ خواہ مالی احتیاج ہو، خواہ وہ علمی احتیاج ہو، خواہ وہ جسمانی احتیاج ہو چنانچہ مفسرین نے ہر طرح کے محتاج کو سائل ماناہے۔ کسی نے گداگر ترجمہ کیاہے یعنی جو مالی طور پر محتاج ہو اور مالی تعاون چاہتا ہو، کسی نے طالب علم مراد لیا ہے یعنی جو علمی احتیاج رکھتا ہو اور کسی سے علمی پیاس بجھانا چاہتا ہو بعض نے جسمانی طور پر معذور افراد بھی مراد لئے ہیں مثلاً لنگڑا، اندھا جواپنی ضرورت کے لئے سہارا چاہتا ہو، لنگڑا جسمانی طور پر مدد کا خواہاں ہو، اندھا راستے کی رہنمائی طلب کرے اور اسے منزل تک پہنچا دیا جائے تو یہ بھی سائل کے زمرے میں آتا ہے اور مدد کا مستحق ہے گویا کسی لحاظ سے کوئی معذور ہو اور ضرورت پوری کرنے کے لئے مدد طلب کرے تو وہ سائل سمجھا جائے گا۔
قرآن مجید میں محتاجوں کے لئے کچھ دوسرے الفاظ بھی استعمال کئے گئے ہیں مثلاً فقیر، مسکین، عائل ، محروم وغیرہ یہ سب محتاجوں کی مختلف کیفیات اور نوعیتوں پر دلالت کرتے ہیں لیکن قدر مشترک احتیاج ہر جگہ پائی جاتی ہے ۔ مختصر طور پر یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ فقیر اس کو کہتے ہیں جو کمانے کی صلاحیت ہی نہ رکھتا ہو جیسے اپاہج۔ مسکین اس کو کہتے ہیں جو کمانے کی صلاحیت تو رکھتا ہے لیکن ضرورت بھر نہیں کماپاتا یا کمانے کا موقع میسر نہیں جیسے بے روزگار۔ عائل اسے کہتے ہیں جو مختلف اسباب سے دوسروں پر اپنی ضروریات کے لئے منحصر ہو۔ مثلاً بچے اور غلام۔اسی طرح محروم اسے کہتے ہیں جو ہوں تو صاحب صلاحیت لیکن اچانک وسائل چھن جانے کی وجہ سے محتاج ہوگئے ہوں۔ مثلاً آفت زدہ جیسے کوئی زلزلہ یا سیلاب کا شکار ہو جائے وغیرہ۔ یہ سارے کے سارے لوگ گویا محتاج ہیں اورسائل کے زمرے میں آتے ہیں اور حق ہے کہ ان کی مدد کی جائے جیسا کہ قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

Quran#51|19|ur#

اور ان کے مالوں میں سائل و محروم کا حق ہے ۔
حق کا مطلب یہ ہے کہ ان کا حق ہے کہ ان کی مدد کی جائے البتہ دوسروں پر فرض ہے کہ ان کی مدد کریں اگر نہ کریں تو گنہ گار ہوں گے ۔ اس مقام پر اسلام کی تعلیمات کی افضلیت نکھر کر سامنے آجاتی ہے ۔ اشتراکی تصور رکھنے والے تو یہ سمجھتے ہیں کہ جو کما نہ سکے اسے کھانے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ ذہنیت رکھنے والے یہ سوچتے ہیں کہ از راہ ہمدردی ایسے لوگوں کی مدد کی جانی چاہئے لیکن سرمایہ داروں پر ان کی مدد لازم نہیں ہے۔ گویا ان کے لئے یہ معاملہ اختیاری ہے چاہیں مدد کریں چاہیں مدد نہ کریں۔ جین مت اور بودھ مت میں تو اس طرح مانگ کر اپنی ضرورت پوری کرنے کو مذہبی تقدس عطا کردیا گیا ہے ۔ گویا کمانے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود مانگ کر ضرورت پوری کرنا ہی مذہبی اعتبار سے بہتر سمجھا جاتاہے۔ صرف اسلام کی تعلیم اعتدال پر مبنی ہے۔ یعنی یہ کہ اپنی ذاتی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ خود کماکر اپنی ضرورت پوری کریں۔ چنانچہ حدیث میں ہے ’’مَا أَکَلَ اَحَدٌ طَعَاماً قَطُّ خَیْراً مِنْ اَنْ یَأْکُلَ مِنْ عَمَلِ یَدِہٖ‘‘ (بخاری) کسی آدمی نے اپنی کمائی سے زیادہ بہتر کوئی کھانا نہیں کھایا ہوگا‘‘۔
ایک شخص نے آپﷺ سے زکوٰۃ کی مد سے مدد چاہی تو آپﷺ نے اس کی تندرستی دیکھ کر منع کردیااور فرمایا ’’لاَ حَظَّ فِیْھَا لِغَنِّیٍ وَلاَ لِقَوِیٍّ‘‘(احمد، داؤد، نسائی) زکوٰۃ میں مالدار اور کمانے کے قابل صحت مند آدمی کے لئے کوئی حصہ نہیں ہے۔
اسی طرح ایک صحابی رسول نے امداد طلب کی تو آپﷺ نے گھر کا سامان نیلام کرکے کلہاڑی تھمادی اور کہا لکڑی کاٹ کر لاؤ بیچو اور اپنی اور اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری کرو ۔البتہ جو واقعتہً معذور ہو اور اپنی ضرورت پوری کرنے پر قادر نہ ہو ۔ زکوٰۃ میں سب سے پہلے انہیں کا حق بیان کیا گیاہے۔ اور زکوٰۃ کو فرض قرار دیا گیا ہے جس کی ادائیگی ہر حال میں لازم ہے۔ اگر کوئی نہیں ادا کرتا تو وہ سخت گنہ گار ہوگا۔ حضرت ابوبکرؓ کا طرز عمل تو یہ بتاتا ہے کہ اگر کوئی زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کرے تو اس کے خلاف جنگ کی جائے گی۔ گویا ہر قیمت پر ان مجبوروں کی ضروریات کی تکمیل لازم ہے۔
یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ آیت کے اگلے حصے میں اس طرح کے معذوروں کی ضرورت پوری کرنے کا حکم نہ دے کر صرف انہیں نہ ڈانٹنے کا حکم کیوں دیا گیاہے ۔آخر اس سے ان کی ضرورت تو پوری نہیں ہوجائے گی ؟دراصل ’’فَلاَ تَنْھَرْ‘‘کہہ کر اس سلسلے میں ہمارے رویے کا جو ادنی سے ادنی درجہ ہوسکتا ہے اس کی نشاندہی کرکے اسے پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے یعنی معیار مطلوب تو یہ ہے کہ ایسے معذوروں کی ضرورت پوری کی جائے۔ جیسا کہ دوسرے احکامات سے واضح ہے البتہ اگر کوئی ضرورت پوری کرنے پر قادر نہ ہو تو اسے ایسے لوگوں سے ان کی ضروت پوری کرنے کی سفارش کرنی چاہئے اور ابھارنا چاہئے جو ضرورت پوری کرنے پر قادر ہوں۔ جیسا کہ

Quran#107|3|ur#

اور وہ مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اکساتا‘‘ اور
Quran#4|85|ur#
جو بھلائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا۔وغیرہ آیات سے واضح رہنمائی ملتی ہے ۔ لیکن اگر کوئی اس کی بھی صلاحیت اور قدرت نہیں رکھتا تو ایسے لوگوں کے لئے مناسب رویہ یہ ہے کہ وہ اس طرح کے معذوروں اور حاجت مندوں کو خوبصورتی سے رخصت کریں ایسے لوگوں کو ڈانٹنے ڈپٹنے کا کسی کو کوئی اختیار نہیں ہے کیونکہ یہ مجبوریاں ان کی اپنی پیداکردہ نہیں ہیں بلکہ اللہ نے انہیں آزمائش میں ڈالا ہے ان کو ڈانٹنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کی آزمائش کا مذاق اڑا رہے ہیں اور ان کی تکلیف کو دوبالا کررہے ہیں۔

اس ہدایت میں یہ حکمت بھی پوشیدہ ہے کہ عموماً جو صاحب مال و اسباب ہوتے ہیںان کے اندر ایک طرح کا بڑکپن اور غرور بھی پیدا ہو جاتاہے اور عموماً وہ اس نشہ میں حاجت مندوں کو ڈانٹتے ڈپٹتے رہتے ہیں جس سے حاجت مندوں کی عزت نفس کو اور ٹھیس پہنچتی ہے اس لئے ایسا رویہ اختیار کرنے سے حاجت روائی کرنے والوں کو روکا گیا ہے۔ عزت نفس کا تو اس قدر خیال رکھنے کی تاکید ہے کہ اس طرح انہیں دیا جائے کہ دائیں ہاتھ سے دیں تو بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو۔ حتیٰ کہ اگر کوئی اپناتزکیہ چاہتا ہے اور رجوع کرتا ہے تو اس کی بھی عزت نفس کا خیال رکھا جاناچاہئے جیسا کہ سورہ عبس میں بیان کردہ احکامات سے واضح ہے۔
آج ہمارے ملک میں ایک تہائی سے زیادہ آبادی عربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور دنیا کا ہر پانچواں آدمی غریب کے زمرے میں آتا ہے اس کی وجہ یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیامیں ان غریبوں کے لئے وسائل نہیں رکھے ہیں بلکہ اصل مسئلہ خود غرضی اور عادلانہ تقسیم کا فقدان ہے ۔ آج بھی ماہرین کا یہ کہناہے کہ دنیا کے صرف دس امیر ترین لوگوں کی دولت دنیا کے سارے غریبوں میں تقسیم کردی جائے تو ان کی غربت ختم ہو جائے گی اور ہر غریب کو 20000 روپے زائد ملیں گے۔ تاریخ کے صفحات میں یہ محفوظ ہے کہ عمر بن عبدالعزیز ؒ کے زمانے میں جب خود غرضی کو دبا دیا گیااور عادلانہ تقسیم کی فضا ہموار کی گئی تو لوگ خیرات لے کر نکلتے تھے کہ کسی کو دے دیں لیکن کوئی خیرات لینے والا نہ ملتا تھا۔ آج بھی اگر وہ فضا ہموار کی جائے تو ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے حاجت مندوں کی ضرورت پوری کی جاسکتی ہے اور دست سوال دراز کرنے کا خاتمہ ہوسکتا ہے ۔’’وَمَا التَّوْفِیقُ اِلاَّ بِاﷲِ‘‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *