And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided…(3:103)

دین آسان ہے

Posted by:

|

On:

|

[Hadith]

قَالَ رَسُولُ اﷲِ ﷺ ’’اَلدِّیْنُ یُسْرٌ‘‘[TranslationUr]
(بخاری) ترجمہ: رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’دین آسان ہے‘‘۔[/TranslationUr][/Hadith]
نبیﷺ کی شان یہ بھی بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جوامع الکلم عطا کیا۔ یعنی ایسے چھوٹے چھوٹے کلمات جو زبان سے ادائیگی میں بالکل سہل ہیں لیکن معانی و مطالب کا ایک سمندر اپنے اندر رکھتے ہیں۔ ’’اَلدِّیْنُ یُسْرٌ‘‘ بھی ایک ایسا ہی کلمہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی تخلیق کی خالق اپنے مخلوق کی جملہ خوبیوں اور نقائص سے واقف ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مخلوق انسان کے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا۔ ’’وَرَضِیْتُ لَکُمْ الْاِسْلَامَ دِیْناً‘‘(المائدہ) اسلام کا تعلق پوری زندگی سے ہے اس میں ایمانیات، عبادات، معاملات، معاشرت، سیاست، حقوق و فرائض ،حلال و حرام سبھی شامل ہیں۔ اگر ان کی تفصیلات دیکھی جائیں تو انسان پریشان ہو جاتاہے۔ کہ کمزور انسان اللہ کے کن کن حقوق کو ادا کرپائے گا۔ وہ تو پیدائشی ظلوم و جہول ہے۔ نادان اور ظالم جبھی تو اس نے اللہ تعالیٰ کی اس بڑی امانت کو بخوشی اٹھالیا۔
لیکن اللہ رحمن و رحیم ہے۔ ایک بندے کے لئے ستر ماؤں کی شفقت اس کے پاس ہے۔ وہ بھلا اپنے بندوں پر اتنا بوجھ کیوں ڈالے گاجس کو وہ برداشت نہ کرسکے۔ اس لئے ارشاد باری ہے ’’لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْساً اِلاَّ وُسْعَھَا‘‘اللہ تعالیٰ کسی جان پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ سورہ حج میں ارشاد باری ہے ’’ھُوَ اجْتَبٰکُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ‘‘(حج:۷۸)اسی نے تمہیں برگزیدہ بنایا اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی ۔ اللہ سبحانہ نے انسان کو جن جسمانی ، ذہنی خوبیوں سے نوازا ہے۔ اور جن آسائشوں سے مالا مال کیاہے۔ اُن تمام نعمتوں کے مقابلے میں ذمہ داریوں کا بوجھ بہت ہلکا اور آسان ہے۔ اسی لئے نبیﷺ کا فرمایا ہے دین آسان ہے۔ یعنی دین کے مطالبات پوراکرنا بہت بھاری بوجھ نہیں ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے یہ دین اپنے ہر بندے کے لئے آسان بنایاہے۔ کسی معذوری یا مجبوری کی بنا پر ایسا نہیں کہ وہ دین کے مطالبات پورے نہ کرسکے۔ مثلاً نماز ہر بندے پرفرض ہے۔ مرد، عورت، بوڑھا، اندھا ، لنگڑا، گونگا، مسافر ،مریض سب پر لیکن بہت چھوٹے بچے نابالغ پر فرض نہیں۔ مخصوص ایام میں عورتوں پر فرض نہیں۔ مسافر کے لئے قصر ہے۔ مریض کے لئے حسب طاقت۔ بیٹھ کر، لیٹ کر، انگلی کے اشارے سے یاصرف آنکھ کے اشارے سے پڑھنا جائز ہے۔ مسافر مریض اور عورتوں کے مخصوص ایام کا روزہ دوسرے دنوں میںپورا کیا جاسکتاہے۔
زکوٰ ۃ صرف صاحب نصاب حضرات پر فرض ہے۔ صدقہ اپنی ہمت اور توفیق پر منحصر ہے۔ نہ تو عدم صحت کی وجہ سے ایک بندہ اللہ کی فرض کی ہوئی عبادتوں سے محروم رہ سکتاہے اور نہ مال نہ ہونے کی وجہ سے ۔ یہاں تک کہ جب ایک صحابی پر قصداً روزہ توڑنے کا فدیہ ساٹھ روزے مسلسل رکھنا یا ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا لازم ہوگیا تو بیماری کی وجہ سے نبیﷺ نے روزہ رکھنے سے منع فرمادیا اور انتہائی غربت کی وجہ سے فرمایا وہ صدقہ تم خود ہی کھالو۔ حج تو تندرست صاحب استطاعت پر فرض ہے۔ اسی طرح آپ نے ایک صحابی کو جہاد میں جانے سے روک دیا اور ماں کی خدمت کا حکم دیا۔دوسرے صحابی کا نام مجاہدین کی فہرہست سے کاٹ دیااور ایک محرم بن کر ماں کے ساتھ حج میں جانے کا حکم دیا۔ آپ کا حکم عام تھا ’’یَّسِرُوْا وَلاَ تُعَسِّرُوْا‘‘آسانیاں پیدا کرو اور مشکلات نہ کھڑی کرو۔ ’’بَشِّرُوْا وَلاَ تُنَفِّرُوْا‘‘ خوشخبریاں سناؤ کہ اعمال خیر کی طرف رغبت ہو، اور نفرت نہ پھیلاؤ ہر انسان کے دل میں خیرو شر ہے لیکن قدرتاً انسان کا دل بھلائیوں کی طرف مائل ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اعمال کی تعداد یامال کی مقدار کی کوئی وزن نہیں وہ تو بس نیتوں کو پرکھتا ہے اور اسی پر اجر عطا کرتاہے۔ آپﷺ نے اپنی پھوپھی صفیہؓ اور پیاری بیٹی بی بی فاطمہؓ سے فرمایا دوزخ سے نجات کی فکر کر گرچہ ایک کھجور کا ٹکڑا ہی خیرات کرکے کیوں نہ ہو۔ غزوہ تبوک کے موقع پر ایک مفلس صحابی کو مزدوری میں جو کھجوریں ملیں وہی نبیﷺ کی خدمت میں پیش کردیا۔ نبی ﷺنے ان کھجوروں کو سارے اموال کے اوپر رکھا اور فرمایا اس صدقہ کا رتبہ سب سے بلند ہے۔ لہٰذا دین آسان ہے اور ہر انسان کے لئے قابل عمل ہے۔ صحت ،عقل، علم اور مالداری کی بنیادپر اعمال کا رتبہ نہ گھٹتاہے اور نہ بڑھتا ہے بلکہ اعمال کا وزن نیتوں پر منحصر ہے اور ایک معذور بیمار مفلس بھی اللہ کی بیش بہار ضا مندی کو حاصل کرسکتاہے۔ زندگی کسی نہ کسی طرح تو گزر ہی جائے گی اور اپنے وقت پر موت آجائے گی اگرہر انسان احکام الٰہی کی پابندی کرتا چلے ۔ سنت نبوی کے مطابق اعمال کرے تو وہ اس کے لئے سہل بھی ہوگااور باعث اجر بھی۔
اللہ ہم سب کو آسان دین پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *